پانی سے چلنے والی گاڑی اور عمران خان


غالباً یہ 2011 ء کی ہی بات ہے سارے ہی ذرائع ابلاغ پر ایک حضرت چھا گئے۔ محترم کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک سائنس کے ماہر ہیں اور پانی سے گاڑی چلا لیتے ہیں۔ محترم کے پاس اپنی ایجاد یا اختراع کا پورا نسخہ تھا۔ محترم فرماتے تھے کہ پانی H 2 O ہوتا ہے یعنی دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کے جوہر کے ملنے سے بنا ہوتا ہے۔ ان کی ایجاد سے پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس میں ٹوٹ جاتا ہے اور پھر یہ دونوں گیسیں بالکل کسی بھی دوسرے ایندھن کی طرح جل کرگاڑی کے انجن کو چلاتی ہیں۔ موصوف کا دعویٰ بڑا تھا، اتنا بڑا تھا کہ اگر حقیقتاً پانی گاڑی اور دیگر انجنوں کا ایندھن بن سکتا تو گاڑیوں سے لے کر ٹرینوں تک کا سفر تقریباً مفت ہو جاتا اور فیکٹریوں، ملوں، بجلی گھروں، الغرض ہر نوع کے کارخانوں میں انقلاب برپا ہو جاتا۔

ہمارا میڈیا بیچارہ خبروں کا پیاسا، دعوؤں، وعدوں اور بیانات پر چلنے والا۔ سارا کا سارا ہی موصوف کے گن گانے لگا۔ سندھی چینلوں نے محترم کی پرستش ہی شروع کر دی اور کاوش ٹی وی وغیرہ پر شکوہ کیا گیا کہ قومی میڈیا سندھ کے عظیم سپوت پر توجہ نہیں دے رہا۔ مگر قومی میڈیا بھی موصوف کے گیت گا ہی رہا تھا۔ موصوف کو پروگراموں میں مدعو کیا جاتا اور سامنے کبھی ڈاکٹر عطاء الرحمن اور کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بٹھا دیا جاتا۔

حامد میر صاحب موصوف کے ساتھ پروگرام کرتے جس میں ان کے ساتھ خورشید شاہ صاحب بھی ہوتے مگر چند دن میں میڈیا سے ہی یہ معلوم ہوا کہ موصوف فراڈیے تھے۔ وہ سندھ پولیس کے گھوسٹ ملازم تھے اور ساتھ ہی چند مقدمات میں مطلوب بھی۔ بس اب تو میڈیا نے جلدی سے اس ”سانحے“ کو بھول کر اپنی ساکھ بچانے میں خیر جانی اوار پھر پانی والے سائنسدان کی دوبارہ خبر نہ آئی۔

اس واقعے میں اہم چیز یہ تھی کہ سارے ذرائع ابلاغ اور سارا ہی معاشرہ ایک فراڈ، ایک ٹھگی، ایک فریب میں الجھ گیا۔ سارا سماج ایک لایعنی مکالمے، ایک بے معنی حیرت اور ایک جھوٹے دعوے میں پھنس گیا۔ اس واقعے پر راقم محو حیرت ہی تھا کہ یہ پہیلی ایک فلم سے بڑی آسانی سے سمجھ آ گئی۔ یہ 2014 ء کی بات ہے تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا تھا، جاوید ہاشمی اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر تحریک انصاف کو خیر باد کہہ رہے تھے اور تحریک انصاف والے سارے ذرائع ابلاغ پر پانی سے گاڑی چلانے والے سائنسدان کی طرح طاری تھے کہ عمران ہاشمی اور پاریش راول کی ”راجہ نٹور لال“ ریلیز ہوئی۔

یہ ایک کمال کی فلم تھی۔ اس میں ایک فراڈیا اپنے منہ بولے بھائی کا انتقام لینے کے لئے اس کا قتل کرانے والے بڑے گینگسٹر وردا یادیو سے بہت بڑا فراڈ کرنے، اس سے کروڑوں روپے ٹھگ لینے کا ارادہ کرتا ہے۔ مگر اصل اہمیت کا حامل وہ منظر ہے کہ جب یوگی (پاریش راول) راجہ (عمران ہاشمی) کو فراڈ کرنے کا طریقہ سکھا رہا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ فراڈ کرنے کے لئے ضروری ہے ایک بڑا دعویٰ۔ پھر اس دعوے کے حق میں جھوٹی نظریہ سازی اور پھر شکار کی نگاہ وہاں پر مرکوز کرانا کہ جو چیز فراڈیا اسے دکھانا چاہتا ہے۔

اسی دوران فراڈیا اپنا کھیل کھیل جاتا ہے۔ بڑی حد تک پانی سے گاڑی چلانے والا بھی دراصل یہی تو کر رہا تھا۔ اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا۔ پھر اس دعوے کی دلیل کے لئے بودی سی مگر ایک نظریہ سازی بھی کی۔ پھر سب کو بڑی چالاکی سے وہی دکھایا جو وہ دراصل دکھانا چاہتا تھا اور اسی دوران وہ اپنا کام ڈالنا چاہا۔ مگر ظاہر ہے کہ وہ عمران ہاشمی نہ تھا اور اسے پاریش راول جیسا استاد نہ مل سکا۔ اس نے کام بہت بڑے پیمانے کا کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر ظاہر ہے کہ یہ کام بہت دیر تک چلتے نہیں۔

مگر ہماری سمجھ میں پانی سے گاڑی چلانے والا کھیل حقیقت میں اب آیا۔ اب جب کہ تحریک انصاف کو حکومت ملی اور کچھ دن گزرے۔ اب سمجھ آیا کہ دراصل جب راجہ نٹور لال ریلیز ہوئی تھی تب پاکستان میں بھی ایک فلم تیار ہو رہی تھی اور وہ فلم انتخابات 2018 ء میں ریلیز ہوئی۔ یہاں بھی ایک دعویٰ تھا۔ دعویٰ کرنے والا ایک شعبدے باز کھلاڑی تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک سے بدعنوانی ختم کر دے گا، ملک کو جنت ارضی بنا دے گا، وہ ملک میں انصاف لے آئے گا، دولت کی فراوانی ہو گی، سب اچھا ہو جائے گا مگر ظاہر سی بات ہے کہ پانی سے گاڑی زیادہ دیر چلتی ہے نہیں، چل سکتی نہیں۔

ہوا وہی جو ہوتا تھا۔ ملک ایک نا اہل قیادت کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہی دبئی کی جائیداد وائٹ کرنے والی علیمہ خان، وہی غریبوں پر ظلم ڈھانے والا اعظم سواتی، وہی بدعنوان زلفی بخاری، وہی نا اہل اسد عمر، سب کچھ وہی ہے۔ ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ بس تبدیلی یہ آئی ہے کہ نظام پہلے سے بہت زیادہ ڈھے گیا، تباہ و برباد ہو گیا۔ ڈالر آسمان پر پہنچ گیا، غربت سو گنا بڑھ گئی، اس حکومت سے کچھ سنبھلتا ہی نہیں۔ ہر وقت بس ماضی کے لئے دشنام ان کے پاس ہیں اور مستقبل کے لئے کچھ بھی ان کے پاس نہیں۔

عوام کے ساتھ بہت بڑا فراڈ ہو گیا، ان کو بھیڑ کی جگہ کتا کھانے کو مل گیا۔ ان کو ہرا رنگ کر کے کوا طوطا کہہ کر پیل دیا گیا۔ پانی سے گاڑی نہیں چل سکتی مگر دعوے سے ملک ٹھگے جا سکتے ہیں۔ پھر ایک اور فلم یاد آ رہی ہے، فلم کا نام ہے ”شان“ اس میں امیتابھ اور ششی کپور فراڈیے بنے ہوئے ہیں اور وہ پانی پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سنیاسی بن کر خوب بھاری ٹکٹ لگا کر ایک سوئمنگ پول کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ حیرت سے کرامت دیکھنے کے منتظر ہیں اور پھر نٹ یوگی، کھٹ یوگی پانی پر قدم رکھتے ہیں اور پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ عوام حیرت سے حوض کو دیکھ رہے ہیں کہ اس سے بشریٰ بی بی کا برقعہ اور عمران خان کی تسبیح تیرتی ہوئی برآمد ہوتی ہے۔ یعنی

جب آئے گا عمران، بڑھے گی اپنی شان
بنے گا نیا پاکستان

پانی پہ چلیں گے نٹ یوگی، کھٹ یوگی!
پانی سے چلے گی گاڑی اور کٹا کرے گا راج

مرغی دے گی انڈے
تے برسے گا اناج
نیا پاکستان زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).