ٹک ٹوک سے جائز کمائی یا بے حیائی؟


چند روز قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے سٹیزن پورٹل پر موبائل کی ایک تفریحی ایپ کی شکایت کرتے ہوئے پاکستان میں ”بند“ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مدعا یہ اختیار کیا گیا کہ مذکورہ ایپ نہ صرف نوجوان نسل کے وقت کا ضیاع بلکہ اخلاقی بگاڑ کا بھی باعث ہے۔ اس خبر کے بعد خود تمام خرابیوں کے محرک ”انٹرنیٹ“ کے ذریعے یہ علم ہوا کہ مذکورہ ایپ تو یہودیوں کی سازش ہے جس کے ذریعے خاص کر مسلم ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے ایک ٹویٹ کا ذکر بھی سننے میں آیا جس میں مذکورہ ایپ 10 جنوری کو ”بند“ کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ معلوم نہیں اس سلسلے میں واقعی کچھ اقدامات کیے بھی جارہے ہیں یا نہیں، چہ جائیکہ ملک میں دیگر بحران اور مسائل کی کمی نہیں، پھر بھی ایک موبائل ایپلی کیشن کے خلاف چہار اطراف سے اٹھتی آوازیں ظاہر کررہی ہیں کہ واقعی یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو بروقت حل نہیں کیا گیا تو انگنت اور لاینحل مسائل میں گھری یہ قوم ”غیروں“ کی سازش کا شکار ہوکر نابود ہوجائے گی۔

اظہار خیال کے دوران ”خودستائش“ معیوب امر ہے لیکن برسبیل تذکرہ بتانا چاہیں گے کہ صحافتی شعبے سے ایک طویل رفاقت کے بعد موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے پیدا ہونے والے میڈیا بحران (اصل یا خود ساختہ) اور کارپوریٹ کلچرکی ازلی بے حسی کی زد میں آکر گزشتہ دنوں ہم بھی ”فراغت“ کی نذر ہوگئے اور اسی فراغت کے باعث نہ صرف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا موقع ملا بلکہ مذکورہ ایپلی کیشن سے بھی شناسائی ہوئی۔

ورنہ ہم تو دوستوں کے بصد اصرار کے باوجود بھی ”کتابی چہروں والی دنیا“ میں حاضری نہیں دے پاتے تھے جس کی ایک دنیا گرویدہ ہے اور اپنا تمام تر قیمتی وقت یہاں ”صرف“ کرتے دکھائی دیتی ہے۔ یہ فراغت کی مہربانی تھی جس کے بعد ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی معلومات میں اضافہ کیا ورنہ اس سے پیشتر انٹرنیٹ کا استعمال ”کام“ کی حد تک ہی ہوتا تھا۔ اسی فراغت کے باعث یہ احساس بھی فزوں تر ہوا کہ ہماری قوم کے کروڑوں ”فارغ“ لوگ اپنا وقت کس کرب میں گزارتے ہیں۔

ان کروڑوں افراد میں سے بمشکل ایک چوتھائی حصہ ہی انٹرنیٹ کے استعمال اور سوشل میڈیا پر اپنی اندرونی خلش کے اظہار کا موقع پاتا ہے ورنہ اکثریت خود میں محبوس، گھٹن کا شکار ہوکر تاریک راہوں کے سفر پر گامزن ہوجاتی ہے۔ ان کروڑوں فارغ لوگوں میں سے ایک کروڑ کو توموجودہ حکومت ”کام“ پر لگادے گی (اگر وعدہ وفا ہوا تو۔ ) لیکن باقی اکثریت اور موجودہ حالات میں مزید ”فارغ“ ہوجانے والی کی بڑی تعداد لمحہ فکریہ ہے۔

آخر یہ کروڑوں لوگ کہاں جائیں گے؟ جو لوگ انٹرنیٹ پر آکر اپنی فرسٹریشن دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں مثبت اور منفی دونوں طرز عمل کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ مثبت سرگرمیوں کے پروردہ انٹرنیٹ کا سودمند استعمال کرتے ہیں اور منفی ارادوں والے ذاتی تسکین کی خاطر منفی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ دنیا میں ازل سے ہی سیاہ سفید، خیر و شر کی یہ جنگ جاری ہے اور تا ابد رہے گی۔ وہ جسے تاقیامت مطعون قرار دیا گیا وہ نوع انسانی کو بہکانے کا سامان پیدا کرتا رہے گا۔ یہ حضرت انسان کا ہی فہم ہے کہ وہ مثبت اور منفی کی پہچان کرتے ہوئے اپنی راہ کا انتخاب کرے۔

یہ مت سمجھیے کہ میں موضوع سے بھٹک گیا ہوں بلکہ یہ تمام ہی باتیں موضوع سخن کا احاطہ کرتی ہیں۔ بات ہورہی تھی ایک مخصوص موبائل ایپلی کیشن کی، جسے حالیہ دنوں دجالی فتنہ، یہودیوں کی سازش اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے۔ آئیے اس ایپلی کیشن سے متعارف ہوتے ہیں۔ ایک ایسی ایپ جو کچھ ہی عرصہ میں دنیا بھر کے ”فارغ“ ہی نہیں بلکہ مصروف ترین لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی۔ ٹک ٹوک کہلائی جانے والی یہ ایپ 2014 میں میوزیکلی کے نام سے متعارف کروائی گئی تھی، صرف دو سال کے عرصے یعنی 2016 میں اس کے استعمال کنندگان کی تعداد 90 ملین ہوگئی جبکہ مئی 2017 کے اختتام تک میوزیکلی کے یوزر کی تعداد 200 ملین تک پہنچ گئی۔

2 اگست 2018 کو اس ایپ کا نام تبدیل کرکے ٹک ٹوک رکھ دیا گیا اور حالیہ دنوں دنیا بھر سے اس ایپ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد 500 ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ آخر اس ایپلی کیشن میں ایسا کیا ہے جو لوگ اس کے اس قدر دیوانے ہورہے ہیں، اسی قبیل کی دیگر ایپلی کیشنز بھی موجود ہیں جنھیں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جو ٹک ٹوک کا خاصہ ہے۔ یہ ایک عام سی ایپلی کیشن ہے جس میں مختلف مکالموں یا گانوں پر (Lip Sync) ہونٹ ہلاتے ہوئے پرفارم کرنا ہوتا ہے۔

اس ایپلی کیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ آپ کو اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں۔ مکالموں یا گانوں پر ہونٹ ہلاتے ہوئے آپ اداکاری اور رقص کرسکتے ہیں، یا آپ کے پاس دیگر فنون لطیفہ سے متعلق کوئی بھی ہنر ہے تو وہ بھی آپ پندرہ سیکنڈ سے ایک منٹ کی ویڈیو بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ ایک بہت ہی سستے اور آسان طریقے سے گھر بیٹھے دنیا کو اپنے ٹیلنٹ سے آگاہ کرنا کس طرح غلط ہوسکتا ہے جبکہ آپ کے ملک میں نہ صرف مواقعوں اور سہولیات کی کمی ہے بلکہ ابھرنے والے ٹیلنٹ کو گلا گھونٹ کر، محبوس کرکے فنا ہونے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے نہ صرف قوم کو تعلیمی انحطاط کا شکار بنایا بلکہ اکثریت کو دانستہ پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں کسی خودساختہ طریقے سے اپنے ٹیلنٹ کی پذیرائی کروانے والوں کو روکنا ظلم کے مترادف ہی کہلا سکتا ہے۔ اب ذرا اس ایپلی کیشن کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیجیے۔

یہ ایپلی کیشن اپنے استعمال کنندگان کو کمائی کاموقع بھی فراہم کرتی ہے۔ یعنی اگر آپ میں ٹیلنٹ ہے اور آپ اس ایپ کے دیگر استعمال کرنے والوں کو متوجہ کرکے خود کو دیکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو آپ اس ایپ سے اچھی خاصی رقم بھی کماسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہی موجود معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایپ کے ٹاپ 10 یوزرز کی دو ہفتوں کی کمائی تقریباً 46 ہزار ڈالر ہے، بارک بیکر نامی ایک یوزر نے اپنی ابتدائی ایک درجن پرفارمنس سے تقریباً 30 ہزار ڈالر کمائے۔

یہ ہوشربا کمائی سرفہرست دس لوگوں کی ہے لیکن باقی افراد بھی پیچھے نہیں، ایک عام یوزر جو ایک ملین فین بنا کر گولڈن کراؤن کا حقدار ہوجاتا ہے اس کی ماہانہ کمائی بھی دو سے تین ہزار ڈالر ہوسکتی ہے یعنی پاکستان روپے میں 2، 3 لاکھ روپے ماہانہ۔ ہمارا پڑوسی ملک جسے ہم ازلی حریف سمجھتے ہیں، میں بھی یہ ایپ بہت مقبول ہے، یہاں فیصل خان، حسنین خان جیسے ٹک ٹوک یوزرز کے آج لاکھوں فین ہیں جنھیں چند ماہ قبل تک صرف ان سے متعلقہ افراد ہی جانتے تھے، صرف بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی انھیں پسند کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے کئی عام لوگوں نے اس ایپ کے ذریعے اپنا ٹیلنٹ دکھایا اور بعد ازاں وہ اپنے اپنے ممالک میں شوبز اور دیگر شعبہ جات کے اسٹارز بن گئے۔ ان عام لوگوں کی زندگی میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کے پیچھے بھی ٹک ٹوک کا ہی ہاتھ ہے۔ اب آپ ہی بتائیے آپ کے ملک میں کتنے ادارے ہیں جو آپ کے ٹیلنٹ کی پذیرائی کررہے ہیں، مواقع فراہم کررہے ہیں؟ جو چند ایک ادارے ہیں ان تک بھی کس طبقے اور کتنے افراد کی رسائی ہے؟ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پاکستان کے کسی گمنام ٹیلنٹ کی خبر ملتی ہے، پھر اس خبر پر اپنا کاروبار چمکانے کے بعد حکومتی نمائندے، با اختیار افراد یہاں تک کہ خود میڈیا بھی فراموش کرکے بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں اس ایپلی کیشن پر دوسرے اعتراض کی، یعنی فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کی۔ یہ تذکرہ پہلے ہی ہوچکا ہے کہ ہر چیز کا مثبت یا منفی ہونا اس کے استعمال کنندہ کی ذاتی خواہش پر منحصر ہے۔ جب میں نے اس ایپ کو استعمال کیا تو میرے سامنے کوئی ایسی ویڈیو نہیں آئی جسے فحش کا نام دے سکیں لیکن چونکہ اس موضوع پر خامہ فرسائی مقصود تھی اس لئے یوٹیوب پر بطور خاص تلاش کیا تو کچھ ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ذو معنی اور بیہودہ مکالموں کا استعمال ہوا تھا لیکن قابل افسوس بات ہے کہ وہ ذومعنی اور لچر جملے پاکستان کے ہی اسٹیج ڈراموں سے لئے گئے تھے، یعنی یہ برائی خود پہلے ہی آپ کے معاشرے میں موجود تھی جس کا تدارک نہیں کیا گیا۔

جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کے ڈراموں اور اشتہارات میں اس سے کہیں زیادہ کھلے جملے اور مناظر دکھائے جارہے ہیں، اس طرح ٹک ٹوک سے پہلے آپ کا میڈیا گرفت میں آنا چاہیے۔ جہاں تک سوال جوان لڑکے لڑکیوں کی اپنی ویڈیو بنانے اور خود کو عام کرنے کا ہے، اس کے بھی دیگر پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح آج کل والدین نے نوجوان نسل کو بے مہار چھوڑا ہے، موبائل کی صورت میں ایک فتنہ ان کے حوالے کر رکھا ہے، کیا آپ صرف ایک ایپ پر پابندی لگا کر ان سب خرافات کے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اس ایپ کی برائیاں انٹرنیٹ پر جن پلیٹ فارمز پر ہورہی ہیں وہ خود معاشرے کی خرابی اور فحاشی کے بہت بڑے محرک ہیں۔ فیس بک اور یوٹیوب پر کیا آپ کو صرف اخلاقی باتیں ملتی ہیں؟ واٹس ایپ کی خامیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یعنی پھر تو ان تمام میڈیمز کو بھی ”پابند“ کردینا چاہیے، جبکہ فیس بک جیسا پلیٹ فارم نہ صرف بے مہار آزادی بلکہ انتشار، رانگ انفارمیشن اور سیاسی انارکی کا بھی باعث بن رہا ہے لیکن چونکہ حکومتی زعما اور سیاستدانوں کے اپنے مقاصد اس پلیٹ فارم سے جڑے ہیں اس لئے کوئی اسے بند کرنے کی بات نہیں کرتا۔

دوسری جانب انٹرنیٹ اور موبائل پر کئی غلط ویب سائٹس اور ایپلی کیشن موجود ہیں جو ڈیٹنگ اور جسم فروشی کا کاروبار کررہی ہیں لیکن پاکستان میں اس کی طرف بھی کسی کی نظر نہیں۔ ہم نہ تو ٹک ٹوک کے شیدائی ہیں اور نہ ہی بے جا طرف داری کرنا چاہتے ہیں لیکن جو مدعا اٹھا کر آپ ایک ایپلی کیشن کو بند کرنے کی بات کررہے ہیں اس سے پہلے بڑے محرکات کا خاتمہ کیجئے۔ سب سے بڑھ کر ملک سے ”بے کاری“ اور ”فراغت“ کا خاتمہ کریں، ملک میں موجود ٹیلنٹ کی قدر اور انھیں مواقع فراہم کریں۔ اگر نوجوانوں کے پاس مصروفیت کے لئے مثبت سرگرمیاں ہوں گی تو انھیں ٹک ٹوک کیا، کسی بھی ایپ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).