جنگل کیسے پار کیا جائے


انسان بلا شبہ تمام مخلوقاتِ خداوند میں سب سے منفرد اور باصلاحیت ہے اور اسی لیے مخلوقات میں اشرف بھی قرار دیا گیاہے۔ افسوس یہ ہے کہ روز بہ روز لاکھوں آدمی جہانِ فانی کو خیرباد کہتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر اپنی قابلیت، اہلیت اور استعداد کا ٹھوس استعمال کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس کے بہت سے عوامل ہیں جن میں لاعلمی، عدم اعتماد، مواقع کم میسّر ہونا بھی شامل ہیں مگر اس کے اصل ذمہ دار فرد اور معاشرہ ہیں۔

آپ نے شاید وہ تصویر دیکھی ہو جس میں مسائل کی بھیڑ کے درمیان ایک اندھا اپنی سفید چھڑی پکڑے بیناؤں کی قطار کا رہنما بنا ہوا ہے اور تمام بیناؤں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ گو کہ کسی پیچیدہ شعر کی طرح اس تصویر سے متعدد معانی اخذ کیے جاسکتے ہیں لیکن اس کا ایک مطلب بہت توجہ طلب ہے۔ وہ مطلب ہے مسائل سے گھبراکر اپنی زندگی کو خطروں کے حوالے کردینا۔ اندھی تقلید کرنے والوں کو ان کا رہبر اگر اندھی کھائی میں گرادے تب پچھتاوے کے سِوا اور کیا ہاتھ آئے گا۔

وقت شاہد ہے کہ چند فٹ کے ایک انسانی وجود میں دنیا کو تہہ و بالا کردینے کی چنگاری تک موجود ہوتی ہے تو پھر روزمرّہ کے روزگار اور مسائل سے دلبرداشتہ یا مایوس ہوکر ایسا کرنا یا پھر اسے آسان راستہ سمجھنا شجاعت کے بلکہ انسانیت کے منافی ہے۔ انسان بڑا باصلاحیت ہے، دماغ جیسی مشینری اور دل جیسا بصیرت کا پیمانہ رکھتے ہوئے وہ کیونکر حوصلہ ہار جائے! محنت کے وصف سے خود کو بچاکر کسی اور کے پیچھے چلنا دانائی نہیں ہے۔ کشتی جب دریاکے رحم و کرم پر آجائے تو کون جانے اسے کنارہ نصیب ہو یا غرقاب ہوجائے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ زندگی اپنے ہاتھ میں رکھ کر اسے دانشمندی سے بسر کیا جائے۔ آخر یہ ہے بھی خالق کی امانت جو عمدہ ملی تھی اور عمدہ ہی واپس جانی چاہیے۔

لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان محض اپنے زورِ بازو کے ذریعے زندگی کے تمام نشیب و فراز سے کامیابی کے ساتھ گزرسکتا ہے یا اپنی مدد آپ ہی تمام مسائل کو بحسن و خوبی حل کرسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ تنہا حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتا نہ ہی معاشرے سے کنارہ کش ہوکر آسودہ خاطر رہ سکتا ہے۔ آخر انسان ہے خدا تو نہیں۔ صرف خدا ہی ہے جو کسی بھی تعاون اور شراکت داری کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ یکتائی فقط خدا ہی کو زیبا ہے۔ انسانوں کو بہرحال انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

رہی بات گمبھیر مسائل کی تو ان سے راہِ فرار کوئی حل نہیں ہے۔ دنیا میں کون ہے جو سکون اور خوشی نہیں چاہتا اور کون ہے جو مکمل سکون میں ہے اور خوش ہے! الّا ماشاءاللہ۔ زندگی آسانیوں سے تعبیر نہیں بلکہ مشکلات کا جنگل ہے۔ اس جنگل کے چنگل سے خود کو نکالنا ہی مقصود ہے ناکہ اپنے آپ کو جنگل کے درندوں کے آگے پیش کردینا۔ اور ایسا کرنا فردِ واحد کی ہمت و حوصلے پر تو منحصر ہے ہی لیکن معاشرے کے دیگر افراد کی معاونت کے بغیر یہ جنگل پار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے شاید مہم جوئی پر مبنی کہانیوں میں دیکھا ہوگا کہ جنگل میں بھٹک جانے والے یا کسی مقصد کے لیے کوشش کرنے والے مل کر ہی خطروں کا مقابلہ کرتے اور طویل جدو جہد کے بعد منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔ زندگی کی حقیقت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔

ہوتا ہے ذرا مشکل ہر کام زمانے کا
منزل کے سبھی راستے آسان نہیں ہوتے

المیہ یہ ہے کہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ کسی کو کسی کی پروا رہی ہے نہ معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس باقی ہے۔ حتّٰی کہ قرآنِ عظیم اور احادیثِ کریم کی شدید تاکید کے باوجود مسلمان معاشروں میں بھی صلہ رحمی اور بھائی چارے کے اوصاف تک زندگیوں سے نکلتے جارہے ہیں۔ مشکلات کا حل اسی میں مضمر ہے کہ ہر آدمی امید اور بھروسا صرف خدا سے وابستہ کرے۔ دوسری جانب معاشرے میں اپنا دستِ تعاون دراز رکھے اور لوگوں سے ملنے والے جائز تعاون اور شراکت داری میں بھی اپنا حصہ لے کہ یہی معاشرے کی روایت اور یہی ضرورت ہے۔ لامحالہ آپ کسی سے تعاون کرتے ہیں کوئی آپ سے تعاون کرتا ہے، کہیں آپ کسی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں کہیں کوئی آپ کی ذمہ داری اٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ فرد کی کامیابی معاشرے کے تعاون کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

فی زمانہ یہ انسان ہی ہیں جو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر دوریاں بڑھاتے ہیں اور معاشرے کو آدمیت کی خاک سے اٹھ کر انسانیت کے فلک پر فائز ہونے نہیں دیتے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا آخر کب تک ہم بغض و عناد، حسد، مکر و فریب اور تذلیل جیسے منفی رویّوں کے دوزخ سے باہر نہیں آئیں گے اور کب اپنی نیّتیں درست کرکے ایک دوسرے کے معاون و مددگار، دوست اور غمگسار بنیں گے جس سے ایسا معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں محبّت اور خلوص پروان چڑھے، دلوں میں دردمندی ہو اور فضا جیت کے سرود سے مسرور ہو۔ آپ بھی سوچیے میں بھی سوچ رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).