خدا کے بڑے سورج والا دن۔۔۔ اور ماں کی ’مشقت‘


\"waqarبچوں کے کھل کھیلنے کا دن ہوتا تھا۔ اگر کوئی بچوں کو ہلکا سا بھی ڈانٹ دیتا تو بڑے بزرگ غصے میں آ جاتے اور کہتے، خدا سے ڈرو آج اس کے بڑے سورج والا دن ہے۔

بڑے سورج کے دن والا محاورہ دو عیدوں کے لیے مخصوص تھا۔

بچپن کے دن یاد ہیں کہ جب چاند کی اطلاع کا ذریعہ وہ ڈھول تھا جو مسجد کی چھت پر پیٹا جاتا۔

جیسے ہی ڈھول پر پہلی ضرب پڑی ویسے ہی خواتین کے قہقہے اوربچوں کی کلکاریاں گونج اٹھیں۔

خواتین چولہے کی جانب بھاگیں کہ تلہ گنگ میں مکھڈی حلوے کے بغیر عید ، آپ کی مسلمانی شناخت مشکوک کر دیتی ہے۔

 اس کے بعد خواتین کے لیے ایک عجیب مشقت کی داستان ہے ۔ آدھی آدھی رات تک حلوے کے ساتھ زور آ زمائی، کوئلے کی استری سے بچوں اور مردوں کے کپڑے استری کرنا، اور گاﺅں کے ”کمی کمینوں“ کے لیے ’دھاڑی ‘ کا بندوبست۔

دھاڑی سے مراد چند پتلی روٹیاں جن میں حلوہ موجود تھا صبح سویرے نائی، موچی، مولوی، لوہار، جولاہا وغیرہ کے گھر عید پڑھنے سے پہلے پہنچانی ہوتیں۔

صبح اٹھنے میں روزانہ کی سستی ایک جانب لیکن عید کے روز آنکھ کھلتے ہی یہ تصور کہ آج عید کا دن ہے بدن میں سنسناہٹ پیدا کر دیتا۔ منہ ہاتھ دھوتے ہی دھاڑی دینے کا کام بچوں کے ذمہ ہوتا تھا ۔ اس لیے اب پورے گاﺅں کے طول و عرض کو ماپنا ہے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہوجو دھاڑی دینے کی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے استری کیے اپنے نئے کپڑوں کو نہ دیکھتا ہو کہ جو کسی چارپائی پر سلیقے سے سجے ہیں۔ لیکن ان کو پہننے میں ابھی تھوڑی دیر ہے۔

بچپن کی کم از کم پانچ عیدیں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے جن میں میں نے سورج کو طلوع ہوتے دیر تک دیکھا۔ تصور کیجئے کہ ایک \"mother\"بچہ ہاتھ میں دھاڑی کا ٹرے نما برتن پکڑے طلوع ہوتے سورج کو دیکھ رہا ہے۔ کھیتوں کے سلسلوں سے پار سورج طلوع ہو رہا ہے آہستہ آہستہ ۔۔اور سورج کی شفق بچے کے چہرے پر پڑ رہی ہے۔ بچہ دیر تک سور ج کو ابھرتے دیکھ رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ اس کا حجم تو تقریبا اتنا ہی ہے۔ یہ بڑا سورج تو نہیں ہے ۔ لیکن کیا پتہ یہ تھوڑا سا بڑا ہو۔ بزرگ غلط تو نہیں کہتے۔ پھر بچہ ان ہاتھوں کو تھوڑا سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ٹرے کوپکڑے تھک چکے ہیں۔ اور پھر سوچتا ہے کہ اگر یہ سورج اتنا ہی غیر معمولی ہے اور جیسا کہ یہ واقعی غیر معمولی ہے تو گاﺅں کے لوگ باقاعدہ ایک اجتماع کی شکل میں اس کو کیوں نہیں دیکھتے۔

اصل میں عید کے دن ہم بڑے سورج والا محاورہ دن میں بیسیوں دفعہ سنتے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ دن کی خصوصیت اگر سورج کے ہی بڑے ہونے کے حوالے سے ہے تو سب مل کر صبح اس کو طلوع ہوتا کیوں نہیں دیکھتے؟ مجھے نہیں معلوم، لسانیات میں محاورہ اور مبالغہ کی فلسفیانہ توجیہات کیا ہیں لیکن یہ ضرور سمجھ آتی ہے قدرت کی بنائی مشین کے خالص ترین دور میں محاورہ بھی لغوی معنوں میں ہی لیا جاتا ہے۔ محاورے اور مبالغے سے سچائی کس حد تک مسخ ہوتی ہے اس سے ہمیں کیا سروکار ، کہ ہمارا موضوع تو فی الحال عید ہے۔

جب گھر پہنچتا تو خواتین کی مصروفیات کا وہی عالم ہوتا۔ سچ پوچھیں تو جب بڑا ہوا تو ایک دو دفعہ امی کو زبردستی ان ’مشقتوں‘ سے روکنے کی کوشش کی، بھلا آدھی رات تک اس حلوے میں کف گیری کہ جو بتدریج خشک ہوتا جاتا ہے اور کف گیری کے لیے ایسی زور آ زمائی کرنی پڑتی ہے کہ سر سے پاﺅں تک پسینے سے شرابور ہونا پڑتا، ایک مشقت طلب کام ہے۔ دوسری اہم بات جو مجھے پریشان کرتی کہ خواتین مشقت میں پڑی رہتیں اور جب ہم عید پڑھ کر واپس آتے تو بھی انہوں نے نئے کپڑے نہیں پہنے ہوتے تھے۔ اور اگر کہا جاتا کہ نئے کپڑے پہنیں تو کہتیں کہ ابھی ڈھیر سارا کام پڑا ہوا ہے۔ اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہتیں ، کہ مجھے مشین سمجھا ہوا ہے۔۔ میں انسان نہیں ہوں ۔۔ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔

پھر جب میں بڑا ہوا تو شاید ایک عید پر میں نے امی کو حلوہ نہیں پکانے دیا۔ صبح بھی عید پڑھنے سے پہلے ان کو نئے کپڑے پہنوائے۔۔

لیکن معلوم ہے کیا ہوا؟ وہ ان کی زندگی کی واحد عید تھی جس میں وہ مرجھائی رہیں۔

ان کے چہرے پر وہ خوشی نہیں تھی ۔

اس دن ہی یہ باریک نقطہ سمجھ آیا۔۔صاحب اس دھرتی پر یہ مخلوق دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اپنے پکائے کھانے کو جب \"Saraiki_Family_walking\"بچوں اور شوہر وغیرہ کو کھاتی دیکھتی ہے تو نہال ہوتی ہے۔ اسی مشقت میں اس کی خوشی پنہاں ہیں۔ اسی جوڑ جوڑ دکھنے میں وہ خوشی تلاش کرتی ہیں۔

رات کے بارہ بجے ہیں ۔ میں کالم لکھ رہا ہوں اور امی آج ہی اعتکاف سے اٹھنے کے بعد حلوہ بنانے میں مصروف ہیں ۔

میں نے منع نہیں کیا ۔ لگی رہیں ۔

صبح یہ بھی سننے کو تیار ہوں کہ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے ۔ میں انسان نہیں ہوں مجھے مشین سمجھ رکھا ہے۔

صبح یہ سنوں گا او ر دل میں ڈرامے باز کہہ کر نما سا مسکرا دوں گا ۔

کل صبح سورج طلوع ہو گا۔ میں بڑا ہو گیا ہوں ۔ بدقسمتی سے اتنا عقل مند ہو گیا ہوں کہ جان گیا ہوں کہ سورج کے حجم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔

لیکن کم بخت دل کہتا ہے ۔۔کالم لکھ کر جلد سو جاﺅں ۔۔۔صبح جلدی اٹھوں اور دیکھوں ۔۔کیا پتہ سورج بڑا ہی ہو!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments