کیلاش: ’تاریخ سے زیادہ بڑا مسئلہ اس وقت بقا ہے‘


عمران کبیر

عمران کبیر کا کہنا تھا کہ ان کا مذہب زبانی قصے اور کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے

‘وادئِ کیلاش کے بارے میں دنیا کی رائے یہ ہے کہ ان کا خدا نہیں ہے، مذہب نہیں ہے، تو ہر کوئی آ کر ہمارا خدا بننے کی کوشش کرتا ہے۔’

یہ کہنا ہے ضلع کونسل چترال کے رکن عمران کبیر کا جو کالاش کی رُمبر وادی میں بچوں کو کالاشا زبان سکھاتے اور پڑھاتے ہیں اور ساتھ ہی کالاشا مذہب کے فروغ پر بحث کرنے کے لیے فوراً راضی ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سُوری جاگیک: سورج دیکھنے کی انوکھی کالاشا روایت

بشالی: جس کی عمارت اور مکینوں کو ’چھونا‘ منع ہے

’اب سب بچے پاریک پاریک کہہ کر بلاتے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری زبان کا ادب بالکل موجود نہیں ہے۔ لوگ ہماری اصطلاحات کو سمجھے بغیر ان کے بارے میں بہت غلط غلط باتیں کہتے بھی ہیں، لکھتے بھی ہیں لیکن میرے بحث کرنے پر دور بھاگتے ہیں۔’

عمران نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک میت کے آگے لوگ ناچ رہے ہیں تو وہ اُن کے لیے صحیح ہے لیکن باقی دیکھنے والوں کے لیے تعجب کی بات ہوسکتی ہے۔

‘میرے لیے یہ زندگی کا جشن ہے۔ آپ روئیں تو بھی مُردہ اسی حال میں ہی رہتا ہے اور اگر آپ ناچیں تو بھی مردے کو فرق نہیں پڑتا۔’

‘سیاہ کافر’

برٹش راج میں پہلی بار کیلاش کے لوگوں کے لیے ‘سیاہ کافر’ کا لفظ استعمال کیا گیا جس کے بعد کئی کتابوں میں اس کا ذکر کیا گیا۔

عمران کبیر نے بتایا کہ ‘ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی کتابیں ہیں جن کے ذریعے ہم سے بہت سی باتیں منسوب کی گئ ہیں جو ہماری روایات میں شامل نہیں ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ کیلاش کے لوگوں کی اصل تعریف یہ ہے کہ یہاں کے لوگ زرتشت سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کے بقول یہ زندہ رہنے والا سب سے پرانا مذہب ہے۔

‘لیکن اس وقت تاریخ سے زیادہ بڑا مسئلہ ہماری بقا کا ہے۔ ہمارا مذہب زبانی قصے اور کہانیوں کے ذریعےہم تک پہنچا ہے۔ لیکن آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں اسے بچانا ہوگا جس کے لیے اپنی زبان سمجھنا اور اس میں لکھنا ضروری ہے۔’

‘ کالاشا زبان اور مذہب کو جان بوجھ کرختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے’

کالاش کے رہائشیوں کے مطابق 2005 میں بننے والے پرائمری سکول میں زیادہ تر استاد اور استانیاں باہر کے علاقوں سے پڑھانے آتے ہیں جن کو نہ کیلاش کی زبان کا علم ہے اور نہ ہی مذہب کے بارے۔ ساتھ ہی ایک یا دو سکولوں میں کالاشا زبان پڑھائی جاتی ہے اور یہ نظام بھی منظم نہیں ہے۔

عمران کبیر کے مطابق ’ہماری ضلعی انتظامیہ کا زبان اور مذہب کے فروغ کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ ایسا تاثر ملتا ہے جیسے کالاشا زبان اور مذہب کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔’

حال ہی میں عمران نے وہاں ایک سکول شروع کیا ہے جو کیلاش میوزیم کے اندر موجود ہے۔ یہاں وہ بچوں کو کالاشا زبان سکھاتے ہیں اور ان کو وہاں کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں۔

‘اسی طریقے سے ہم ریاضی، انگریزی اور اردو سکھاتے ہیں۔ اب ہمارا بیانیہ کہ ہم کیا ہیں، ہمارا مذہب کیا ہے، وہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے محفوظ کرنا ہے۔ اس سے وہ سارے لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں غلط کتابیں لکھی ہیں، ہم اب ان کا مقابلہ کرسکیں گے۔’

‘کیلاش کے باسیوں کے لیے بقا کی جنگ’

یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہندوکُش کی پہاڑیوں میں بسنے والے کیلاش قوم کے لوگ اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ایجوکیشنل، سائنٹفک اور کلچرل آرگنائزیشن نے کئی بار اس قوم کے حوالے سے اعلانات جاری کیے ہیں جس کے مطابق یہ لوگ چند سالوں میں ختم ہوجائیں گے۔

اسی حوالے سے عمران کبیر جیسے لوگ اس وقت کالاشا زبان میں لغت تیار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ سکولوں میں دیگر مذاہب بےشک پڑھائے جائیں ‘لیکن دوسروں کو جاننے سے پہلے ہمیں خود کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ بچوں کے لیے عربی تحریر سے زیادہ رومن تحریر سمجھنا قدرے آسان ہے۔

‘مثبت باتوں کا ڈھونگ’

عمران کبیر کا کہنا تھا کہ ‘ڈکشنری شائع کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ ہم تو برباد ہیں کیونکہ ہماری زبان غائب ہو جائے گی۔ اس وجہ سے الفاظ کو ذخیرہ کرنے اور جمع کرنے کے لیے ہم نے کافی کام کیا ہے۔‘

ان کے مطابق شروع میں لوگوں نے کہا کہ انھیں اپنی زبان سمجھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘لوگوں کو اس بات کا پتا نہیں تھا کہ اپنی زبان میں سیکھنے کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور جس زبان میں آپ سوچتے ہیں اس زبان میں آپ کو سیکھنا چاہیے۔’

کیا ایک حکومتی ملازم کے لیے مذہب اور زبان کے فروغ پر بات اور کام کرنا مسائل پیدا نہیں کرتا؟

اس پر عمران نے کہا کہ ‘ہم جتنی بھی مثبت باتیں کرنے کا ڈھونگ کریں، ہم اپنے ماضی کو نہیں بھول سکتے۔ ماضی کی غلطیاں تو انسان کا سرمایہ ہوتی ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ کیلاش قوم کو بچانے کا بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ ان کو نصاب میں اپنا مذہب پڑھایا جائے۔

‘مذہب پڑھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اس سے ہمارا ایمان مضبوط ہوگا ورنہ باہر والے آ کر ہمیں ہمارے بارے میں بتائیں گے۔ ہمارے لوگوں کو تو علم ہی نہیں۔ کسی چیز کو غلط کہنے کے لیے آپ کو پہلے یہ پتا ہونا چاہیے کہ صحیح کیا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp