ایک پارسا کالم نگار کے جواب میں


چند روز قبل ایک سینئر صحافی کا ایک کام پڑھا جس میں موصوف نے حالیہ ملکی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے سیکولر اور لبرل انتہاپسندوں پر کڑی تنقید کی تھی اور مختلف واقعات پر اس طبقے کے دہرے معیار کو اجاگر کرتے ہوئے بڑی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ اس بات کا ادراک ہوا کہ موصوف نے تصویر کا دوسرا رخ دکھا دیا جو میرے جیسے کم سمجھ لوگ مس کر جاتے ہیں۔ خواہش ہوئی کہ موصوف کے مزید کچھ کالمز پڑھوں تاکہ تصویر زیادہ صاف نظر آئے۔

اگلا کالم جو میں نے پڑھا اس میں انھوں والدین کو خبردار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے چکر میں ان کی آخرت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اچھی تعلیم دلوانے کی خاطر جدید طرز پر بنے نجی اداروں میں داخل کرواتے ہیں اور بس یہی دیکھتے ہیں کہ بچوں کی پڑھائی کیسی ہو رہی ہے، رزلٹ کیسے آرہے ہیں، بچوں کی انگریزی کیسی ہے جبکہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ انھیں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ کہیں ان کے ایمان اور عقیدے میں خرابی تو پیدا نہیں کر رہا۔

بقول ان کے تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ پائے جاتے ہیں جو طلبہ کو اسلامی عقائد سے دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ موصوف نے ختم نبوت پر منعقد کی جانے والی ایک کانفرس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستانی نوجوان نسل کا ایمان بچانے کے لئے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے داخلہ فارموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرے۔ اس کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہوئے موصوف نے اس بات پر زور دیا تھاکہ اساتذہ کے لئے ختم نبوت کا حلف نامہ لازم کیا جائے تاکہ کوئی غیر مسلم مسلمان کا روپ دھار کر طلبہ کو ورغلا نہ سکے۔

موصوف نے ایمان اور عقیدہ کی حفاظت کے لئے جو حل پیش کیا ہے اس سے میں اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ اس اقدام سے کوئی خاص مثبت نتائج کی تو زیادہ توقع نہیں البتہ معاشرے میں منافقت کی روش کے بڑھنے کے امکان زیادہ ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کے اثرات تو اپنی جگہ، لیکن ایک اچھے معاشرے کے قیام کے لئے جو اقدار بنائے گئے ہیں ان میں کی جانے والی ہیرا پھیری نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مثال کے طور پر ”سچ بولنا“ اور ”بڑوں کی عزت کرنا“ دو اہم اقدار ہیں لیکن خلافِ ضرورت ہم نے ”بڑوں کی عزت“ کو ”سچ بولنے“ پر فوقیت دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عزت رکھنے کی خاطر جھوٹ بولنا بہت عام سی بات ہے۔ بڑا چاہے عمر میں ہو یا کسی سماجی رتبے میں، بڑا غلط ہو تو اس کو غلط کہنے کی ہمت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے منافقت کی روش عام ہوگئی ہے۔ گویا اصلاح کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور سچ بولنے والے کو بدتمیز اور بے وقوف کے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔

بات کی جائے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کی، تو جس انسان کی زندگی آذان کی سماعت سے شروع ہو، کلمہ گو ہو، نمازیں پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور دیگر مذہبی اقدار بجا لاتا ہو، اگر وہ کسی کچے مسلمان یا غیر مسلم کے بہلاوے پر اپنا عقیدہ چھوڑنے کے لئے تیار ہو، اس مسلمان کا کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دستخط لے کر ایمان محفوظ سمجھنا ناسمجھی ہوگی، اور اگر کوئی غیر مسلم معلم مسلمان کے روپ میں طلبہ کو ورغلا رہا ہو اس کو جھوٹا دستخط کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اس معاشی بحران کے دور میں نوکری سے ہاتھ دھونا کون چاہے گا۔ معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے تو ہم ہر جائز و ناجائز عادتوں میں پہلے ہی بہت مشہور ہیں۔ کرپشن، ملاوٹ، حرام خوری، بددیانتی اور ایسی کون سی برائی ہے جو عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔

موصوف نے حکومت سے تقاضا کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں کسی ایسی سرگرمی کی اجازت نہ دے جو مسلمان طلبہ کے عقیدہ اور ایمان میں خرابی کا باعث بنے۔ اس کا میرے نزدیک ایک ہی حل ہے کہ تمام تعلیمی ادارے بن کر دیے جائیں کیونکہ علم کی بنیاد فلاسفی ہے اور فلسفہ منطق کی بات کرتا ہے۔ منطق جاننے کے لئے سوال ضروری ہے اور سوال کے بغیر سیکھنے کا عمل بے معنی ہے۔ سوال کا پیدا ہونا ذہن کے سوچنے کی صلاحیت پر محیط ہے اور کسی کی سوچ پر پابندی لگائی جاسکی ہے نہ لگائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اصل مسئلہ ہے ذہن میں ابھرنے والے سوال کا سہی جواب نہ ملنا۔ جواب ملنا تو دور، ہم نے سوال کرنے پر بھی پابندی لگائی ہے۔ مذہب کے نہ ماننے والے یا کسی اور طریقے سے ماننے والے اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ سوال کرنے کی کھلی اجازت دیتے ہیں اور اپنے طریقے سے جواب دے کر قائل کر لیتے ہیں۔

ویسے بھی آج کے گلوبلائزڈ دور میں ہم جدید تعلیم کے لئے مغرب کے محتاج ہیں، چاہے پاکستان میں رہ کر پڑھیں یا باہر کسی ملک میں جانا پڑے۔ پابندی کا دائرہ کار کہاں تک ممکن ہوگا۔ سقراط، رینے ڈیکارٹس، برٹرنڈ رسل اور مشل فوکو جیسے متعدد بڑے فلسفیوں کو پڑھے بغیر فلسفہ کی سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرنا اچنبے کی بات ہوگی، اسی طرح فریڈرچ نٹشے، سگمنڈ فرائڈ، کارل مارکس، اگسٹ کومٹ، چارلس ڈارون، نیلس بوہر، سٹیفن ہاکنگ جیسے بڑے ذہن، جنہوں نے علم و تحقیق کے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کیا، کو پڑھے بغیر خود کو پڑھا لکھا تصور کرنا بھی جہالت کی انتہا کہلائے گی۔ یہ سارے بڑے ذہن مذہب کو مانتے ہی نہیں یا پھر ہماری طرح نہیں مانتے۔

پھر کس کس چیز پہ پابندی لگائیں گے؟ اور کتنی دیر لگا پائیں گے؟ ہر بچہ عمر کے ایک ایسے مرحلے تک پہنچ ہی جاتا ہے جہاں وہ اپنے فیصلے خود کرنے کا مجاذ رکھتا ہے۔ اس عمر تک اس کے ذہن میں جنم لینے والے سوالات کے سہی جواب نہ ملے ہوں تو اس کے بعد اس کو سمجھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ لہٰذا سوالات کو دبا کر ان کے کمزور عقائد کی حفاظت کے لئے غیر عملی اقدامات کے بجائے شعور کے معیار کو بہتر کرنے، معاشرتی اقدار کو عملی اور حقیقت پسند بنانے کی ضرورت ہے۔

اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جن علماء اور سکالرز نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مظاہر کائنات کی تشریح کی ہے اور گمراہ کرنے والے پیچیدہ سوالات کا بڑے خوش اسلوبی سے منطقی جوابات دیے ہیں ان کو تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، سوال اٹھانے کی اجازت دی جائے اور ذہنی الجھنوں کو بر وقت دور کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوان نہ کسی نیم ملا کے ہتھے چڑھے نہ ہی کسی لبرل شدت پسند کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).