شیشے میں دیکھیے نہ کہ آئینے میں!


بڑے منصب کی خواہش ہر انسان کی فطرت میں ہے مگر منصب کے مطابق ظرف کا عطا ہونا اللہ کی خاص عنایات میں سے ایک ہے۔ کسی عہدے پر براجمان آدمی کے لیے معاملہ فہمی، تحمل، بردباری، ٹھراؤ، صبر و ثبات، عجز وانکسار، نرم خوئی، بلند نگہی، دوراندیشی، نیک نیتی اور اعلٰی ظرفی جیسے اوصاف کا ہونا ازحدضروری ہے۔ اگر یہ اوصاف نہ ہوں تو عہدے پر متمکن شخص اپنے لیے بھی اور اپنے ماتحتوں کے لیے بھی مسائل کھڑے کرتا رہے گا اور فضا ہمیشہ مکّدراور گھٹی گھٹی رہے گی۔

ماتحتوں کو بھی چاہیے کہ وہ انتظامی منصب پر بیٹھے شخص کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور مستعدی، جانفشانی، دیانتداری، تندہی اور خلوص نیت سے فرائض منصبی ادا کریں مگر مجموعی طور پر فضا کو خوشگوار رکھنا سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ غیر ضروری جلدبازی، غیض و غضب اور متلون مزاجی بعض اوقات معاملات کو بری طرح بگاڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

ایک مرتبہ علامہ اقبال کی مجلس میں ایک نوجوان شاعر بیٹھا تھا۔ اس نوجوان کی باتوں میں تعلی اور خود ستائی بہت زیادہ تھی۔ وہ بار بار اپنی شاعری کے گن گارہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر علامہ کے چہرے پر انقباض اور ناپسندیدگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ اٹھ کر اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ اگر نعمت کے مطابق انسان کو ظرف عطا نہ ہو تو وہ نعمت زحمت بن جاتی ہے۔ بے شمار اداروں میں ماتحت عملے کے لوگ آئے دن افسرانِ بالا کے غیر ضروری غصے، جھنجلاہٹ، عجلت پسندی اور متلون مزاجی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

ان افسرانِ بالا کے لکھے یا بولے گئے چند جملوں سے سب کچھ تہ و بالا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کام کی زیادتی، نفسیاتی کیفیت اور مخصوص افتاد طبع کے باعث چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو کر گندم کے ساتھ گھن کو بھی پیسنے کاعادی ہو اور پھر اس کی عجیب و غریب تاویلیں بھی پیش کرتا پھرے تو وہ ہرگز کسی ایسے عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا جس میں بہت سے لوگ بروئے کار ہوں۔ وگرنہ حضرت علی رض نے منسوب یہ قول زریں درست ثابت ہوگا کہ منصب ملنے کے بعد انسان بدلتا نہیں بلکہ بے نقاب ہوتا ہے۔ تھوڑے بہت فرق سے شاعر نے اسی بات کو کچھ یوں منظوم کیا ہے

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے

میخانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

اونچی مسندوں پر بیٹھے اگر غرور وتکبر، خودستائی اور نا اہلی کے ساتھ ساتھ منتقم مزاج، ہتھ چھٹ اورمنافقانہ روش کے حامل بھی ہوں گے تو کبھی ان کی ذات سے دوسروں کو خیر نہیں ملے گا۔ آخر بزرگوں نے سال ہا سال کے تجربات کے بعد ہی آب زر سے لکھے جانے کے قابل اقوال کی میناکاری کی ہے۔ ڈھول اندر سے خالی ہے اس لیے صدا دیتا ہے۔ آدھا گھڑا چھلکتا رہتا ہے۔ پھل دار درخت کی شاخیں جھکی رہتی ہیں۔ چوٹی سر کرتے وقت انسان کا سر جھکا رہتا ہے اور نیچے اترتے وقت اس کا سر اوپراٹھا ہوا اور جسم اکڑا ہوا ہوتا ہے۔ اسی بات کو میر انیس نے یوں کہا ہے

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا ہوتا ہے

ادارہ ہو، تنظیم ہو، پارٹی ہو، شہر ہو، صوبہ ہو یا ملک سربراہ کا جہاندیدہ، فہمیدہ، سنجیدہ اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ متعلقہ شعبے میں خاطرخواہ علم کے ساتھ ساتھ ضروری تربیتی مراحل سے بھی گزرا ہو۔ فیصلوں کے حوالے سے اپنی ذات کا اسیر نہ ہو بلکہ باہمی مشاورت کا طریق اختیار کرے۔ ایک مرتبہ ایک دانا نے اپنے بیٹے کو شیشے کے سامنے کھڑا کرکے پوچھا کہ اسے کیا دکھائی دے رہا ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ لوگ نظر آرہے ہیں۔

پھرباپ نے اسے آئینے کے روبرو کھڑاکرکے پوچھا کہ اب کیا نظر آرہاہے؟ بیٹے نے کہا کہ اپنا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ اس پرباپ نے کہا کہ بیٹا! دونوں شیشے ہیں۔ ایک پر چاندی کا ملمع چڑھایا گیا تو اس میں تمھیں اپنا آپ دکھائی دیا۔ جب اسے خالی رکھا گیا تو تمھیں لوگ نظر آئے۔ اگر تم آئینہ بن کے خود پر ملمع چڑھاؤ گے تو اپنا آپ نظر آئے گا جس سے تم میں تکبر پیدا ہوگا اور اگر شیشہ بن کے رہوگے تو لوگ اور ان کے دکھ درد دکھائی دیں گے اور تم میں عجز و انکسار پیدا ہوگا۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیتے رہناچاہیے کہ ہم آئینے میں دیکھ رہے ہیں یا شیشے میں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).