فواد چوہدری بلوچستان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟


پاکستان کے 44 فیصد رقبے، اور صرف 7 فیصد آبادی کے ساتھ تیل، گیس، تانبے اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کے سب سے غریب اور پسماندہ علاقوں میں شمار ہونے والے صوبہ بلوچستان کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال میں 15 سو ارب روپے بلوچستان کی ترقی کے لئے فراہم کیے گئے مگر ابھی بھی بلوچستان کی صورتحال ابتر ہے اور یہ رقوم کرپشن کی نذر ہوئی ہے۔

اس انکشاف نے مجھے تجسس میں ڈال رکھا ہے۔ کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ علم و دانش سے مزین بلوچستان کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور سینٹ میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہ فرزندان بلوچستان اپنی ذمہ دار حیثیت، اور آئینی اداروں کے فلور پر اعداد و شمار کے ساتھ بلوچستان کی مالی پوزیشن واضح کریں گے۔ لیکن کوئی آہٹ سنائی نہیں دے رہی۔ یا شاید بلوچستانی ارکان پارلیمان دلیل کی نعمت سے محروم ہیں۔ قلم اٹھاتے ہوئے اس موضوع پر چوہدری صاحب کی رہنمائی کے ارادے سے ہی ہاتھ کپکپا رہے ہیں۔

بہ حالت مجبوری تلخ حقائق کا بوجھ قلم ناتواں کے سپرد کررہا ہوں۔ ہم جیسے لکھاری شعلہ بیان اور پارلیمان اور پارلیمان کے باہر بھی پارلیمانی اقدار کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے والے چوہدری صاحب کی توجہ بلوچستان کی خستہ حالی کی طرف بوجہ مجبوری دلا رہے ہیں۔ صوبہ سیاسی بانجھ پن کے ساتھ ساتھ صحافتی بانجھ پن کا بھی شکار ہے۔ سیاستدانوں اور لکھاریوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ان کے حصے کا کام بھی میرے ہی حصے میں آرہا ہے۔

چوہدری صاحب آپ بدقسمتی تو دیکھئے کہ آپ جیسے زیرک اور معاملہ فہم شخص بھی جس گزشتہ چار حکومتوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں شامل رہے، سیاسی بے روزگاری کے دوران، صحافت کے میدان میں بھی طالع آزمائی کی۔ آپ نے بلوچستان کے زمینی حقائق پر بے دھڑک بات کر تو لی ہے، یہ الگ بات ہے کہ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو۔ کہ گوادر کوئٹہ کے نزدیک ہے یا کراچی کے نزدیک؟

2017 / 18 کے چاروں صوبوں کی بجٹ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بلوچستان کا ٹوٹل بجٹ 276 ارب روپے تھا، جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے 229 ارب روپے اور صوبے کے آمدن کے ذرائع 46 ارب روپے تھے، کل بجٹ سے 245 ارب روپے تنخواہوں و دیگر حکومتی اخراجات پر خرچ ہوئے۔ جب کہ ترقیاتی کاموں کے لئے اس بجٹ میں 86 ارب روپے تھے۔ جبکہ 86 ارب روپے میں 52 ارب روپے خسارہ تھا۔ اسی مالی سال میں پنجاب کا ٹوٹل بجٹ 1970 ارب روپے جس میں وفاقی حکومت نے 1154 ارب روپے دیے جبکہ اپنے ذرائع آمدن 816 ارب روپے تھے، 635 ارب روپے ترقیاتی بجٹ اور خسارہ نہیں تھا۔

صوبہ سندھ کا بجٹ اسی مالی سال میں 1028 ارب روپے تھا جن میں وفاقی حکومت کی جانب سے 654 ارب روپے دیے گئے جبکہ ذرائع آمدن 347 ارب روپے تھا، صوبے کا ترقیاتی بجٹ 344 ارب روپے اور خسارہ 14 ارب روپے تھا۔ خیبر پختونخوا کا اسی سال کا بجٹ 603 ارب روپے، وفاقی حکومت نے 425 ارب روپے دیے۔ صوبے کی آمدن 117 ارب روپے، ترقیاتی بجٹ 208 ارب روپے ہے، جب کہ خسارہ کوئی نہیں تھا۔ اب اسی بجٹ کے حساب سے اگر ہم یہ بجٹ صوبوں میں فی کلومیٹر کے حساب سے تقسیم کرتے ہیں تو پنجاب میں 1 کلومیٹر علاقے پر یہ رقم 30 لاکھ 9 ہزار روپے سندھ میں 24 لاکھ چار ہزار روپے خیبر پختونخوا میں 27 لاکھ 9 ہزار روپے جبکہ بلوچستان میں یہ رقم صرف 2 لاکھ 47 ہزار روپے بنتی ہے۔ اگر بلوچستان کے بجٹ سے خسارہ نکال دیا جاتا ہے تو ترقیاتی بجٹ مزید کم ہوگا اور چوہدری صاحب آپ اس بات کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں کہ ان دس سالوں میں نیب کیا کر رہا تھا؟ کیا وہ بھی اس کرپٹ نظام کے رحم و کرم پر تھا یا پھر وہ ایک وفاقی اور خود مختار ادارہ تھا؟

اب اس سے پہلے کہ چوہدری صاحب کوئی اور بیان داغ دیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اس بات پر سوچ بچار کرے کہ خیرات اور پیکجز سے صوبے کے استعدادکار میں اضافہ ممکن نہیں۔ این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کے لئے بلوچستان حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے۔ اور معاشی خوشحالی کے لئے سی پیک منصوبے میں گوادر کے لئے رقم مختص کرنے، سوئی گیس، سیندک سمیت دیگر مدات میں وفاق کے ذمہ واجب الادارقم کے حصول سمیت این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد کے لئے بلوچستان حکومت سے آؤٹ اسٹینڈنگ کی مد میں آنے والے 200 بلین روپے کس مد میں خرچ ہوئے ہیں، اس کا حساب لیں۔ اور ترقیاتی عمل کو صوبے میں شفافیت کے ساتھ تکمیل کروائی جائے اور فواد چوہدری کو ایک سوال نامہ ارسال کریں۔ کہ ساتویں ایف سی ایوارڈ کی رو سے 2017 / 18 کی ایک ہزار ارب روپے کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں وفاقی حکومت نے بلوچستان میں 9 فیصدحصے کے حساب سے 90 ارب روپے کے پروجیکٹس کہاں رکھے ہوئے ہیں؟

ان دس سالوں میں جب صوبے میں کرپشن ہورہی تھی تو 9 فیصدکے حصے کے حساب سے 900 ارب روپے وفاقی پی ایس ڈی پی سے بلوچستان میں کہاں خرچ ہوئے۔ ؟ کیا اس میں بھی کرپشن ہوئی ہے یا یہ 900 ارب روپے رکھے ہی نہیں گئے۔ اس سلسلے میں ان کی موجودہ حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں ان دس سالوں میں جب چوہدری صاحب کے بقو ل صوبے میں کرپشن ہورہی تھی اس دوران صوبائی کوٹے پر کس قدر عملدرآمد ہوا اور کس تعداد میں جعلی ڈومیسائل کے حامل لوگ بلوچستانی ظاہر کرکے اس کوٹے پر تعینات کیے گئے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اس کرپشن پر کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، یا اٹھائے جا رہے ہیں؟ چوہدری صاحب کو بلوچستان میں دس سالوں کے دوران پندرہ سو ارب روپے تو یاد ہیں، لیکن پنجاب کا دس سالوں کے دوران وفاق سے دس ہزار ارب روپے ملنا کیوں یاد نہیں رہا؟ اگر ان سوالات پر وہ خاموش ہیں تو ان کو بلوچستان کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).