روشن خیال باپ کی خوش قسمت بیٹیاں


لبنی مرزا اور خالد سہیل کے مضامین ”نوید کی گرل فرینڈ“ اور ”میری جوان بیٹی کا بوائے فرینڈ“ اور خاص کر اس پر دیے گئے تیز و تند تبصروں یا عشرت پوپل کا تبصرہ ”ایسے باپ کہاں ڈھونڈیں“ نے مجھ میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اپنے والد سید محمد مظاہر کی اپنی بیٹیوں سے تعلق کا ذکر کروں۔

ویسے تو میرے والدین کے بہت سے بچے ہیں جو جذباتی اور نظریاتی طور پر ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر میرے والدین نے 70 کی دہائی میں دو بیٹیاں پیدا کیں۔ جن میں کسی فیملی پلینگ کے اشتہار کے عین مطابق ٹھیک 4 سال کا فرق تھا۔ وہ بھی اس معاشرے میں جہاں چاروں طرف لوگ لڑکے کی امید پر 6 یا 8 لڑکیاں پیدا کرتے تھے۔ ویسے تو میری امی اس فیصلے کو اپنا فیصلہ گردانتی تھیں۔ مگر اس معاشرے میں اگر ایک عورت یہ فیصلہ کرپائے تو بھی اس میں اس کے شوہر کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہو گا۔ ہم دونوں بہنوں کو (شادی اور اس کے ساتھ جڑی کینیڈا اور ساوتھ افریقہ کی ہجرت کے نتیجے میں ) اپنا گھر چھوڑنے تک اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ہم لڑکیاں ہیں اور ہم کوئی کام اس لیے نہیں کرسکتے کہ ہم لڑکے نہیں۔ اور نہ اب تک بھائی کی کوئی کمی محسوس ہوئی۔

ہم دونوں بہنوں کی پیدائش پنجاب کی اور پرورش اور ابتدائی تعلیم کراچی کی ہے۔ میں نے جب کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بوجہ ابو سے پوچھا کہ کیا میں یونیورسٹی جا سکتی ہوں تو ابو تین دن تک پریشان رہے اور امی سے پوچھتے رہے کہ اس کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ میں نے تو اس کو کبھی کسی چیز سے نہیں روکا۔ جب میں نے اپنی شادی کے لیے ابو سے کہا کہ مجھے ایک ایسے شخص سے شادی کرنی ہے جو مرد عورت کو برابر سمجھتا ہو تو پھر فکرمند ہوکر کہنے لگے کیا تم نے کبھی کوئی ایسا مرد دیکھا ہے جو عورت اور مرد کو برابر سمجھتا ہو۔ ارے یہ چھوڑو کوئی ایسی عورت ہی بتا دو جو عورت کو مرد کے برابر سمجھتی ہو۔ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آیا کہ میں ان سے کہتی کہ جی میں آپ کو اور اپنی امی کو ایسا ہی سمجھتی ہوں۔

ایک دن ابو نے امی کو خوش ہوکر بتا یا کہ آفس میں ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ میں تنگ آگیا ہوں کیا بتاؤں میرے تین بیٹے ہیں۔ شام کو گھر جاتا ہوں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے دروازہ کھولتا ہوں تو ایک بیٹے کا دوست ہوتا ہے۔ پھر گھنٹی بجتی ہے۔ دوسرے کا دوست ہوتا ہے۔ پھر تیسرے کا دوست، ساری شام اسی میں گزر جاتی ہے۔ میرے ابو نے ان سے ہنس کے کہا آپ کے تو تین بیٹے ہیں میری تو دو بیٹیاں ہیں اور میرا بھی یہی حال ہے۔

ایک وقت تھا جب میرے اور میری بہن کے بہت سے دوست تھے جن میں لڑکوں کی تعداد زیادہ نہیں تو لڑکیوں کے برابر ضرور تھی۔ ہم دونوں چونکہ ایک وقت بانگ ایجوکیشنل تھیٹر گروپ کا حصہ بھی تھے اور تھیٹر کی ریہرسل بھی ہماری چھت پر ہی ہوتی تھی اور راشد فاروقی مصدق سانول اور محمد حنیف جیسے اور بہت سے احباب کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے تھیٹر میں حصہ لینے پر بھی کافی سوال اٹھتے تھے۔ اس کا حل ابو نے یہ نکالا کہ گلشن اقبال کراچی میں ایک شادی ہا ل بک کروا کے کوئی ڈیڑھ سو لوگ مدعو کیے جن میں سارے خاندان اور جاننے والے شامل تھے اور ان کے لیے تھیٹر پرفارمنس کروا دی اور شادی کا کھانا کھلوا دیا۔ سب لوگ خوشی خوشی شامل ہوئے اور سب کے وسوسے دور نہیں تو کم ضرور ہو گئے۔

ہم دونوں بہنوں کو کبھی چائے ٹرے میں سجا کر لوگوں کے سامنے نہیں پیش ہونا پڑا کیونکہ ہم نے جب جس سے چاہا شادی کا فیصلہ کیا اور جب چاہا لوگوں کو اس لئے رد کر دیا کیونکہ وہ ہم سے اس احترام سے پیش نہیں آتے تھے جو احترام ہمیں گھر پر میسر تھا۔ ہمیں پتہ تھا کہ ہم شہزادیاں ہیں۔ کیونکہ ہمارے والد معاشرے کو اپنے اوپر روک لیتے تھے۔ جیسے اک صاحب نے گلی میں میرے والد سے کہا یہ گرل یعنی سلاخیں ہٹوا کے اس کھڑکی کو چنوا دیں بے پردگی ہوتی ہے۔ ابو نے ان سے کہا میں کیوں اپنے گھر کی خوبصورتی خراب کروں لوگوں سے کہیں وہ میرے گھر میں نہ جھانکا کریں۔

اک اور صاحب نے فرمایا آپ اپنی لڑکیوں سے کہا کریں کہ اپنے کپڑے چھت پر سکھانے کے لیے نہ ٹانگا کریں ابو نے ان سے کہا کہ اگر میری بنیان لٹکی ہوگی تو بھی آپ یہی کہیں گے۔ میری ایک کزن نے ان سے پوچھا کہ چچا لوگ ماڈلنگ کے اتنے خلاف کیوں ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے اپنی شلوار کو اپنے گھٹنے تک کیا اور کہا بیٹا جلد نظر آنے سے کچھ نہیں ہوتا یہ ایک فرضی خیال ہے۔ گھر میں ڈاکو آئے اور چلے گئے بہن نے کہا ”شکر ابو، جان بھی بچ گئی اور عزت بھی“ ابو نے کہا عزت؟ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟ ہم نے تو تم کو ایسا کچھ نہیں سکھایا۔ اور ڈاکو تو خود بزدل ہوتے ہیں وہ ہمیں نقصان پہنچا کر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

میرے والد نے اپنے عمل سے اپنے سارے بچوں کی نہ صرف جذباتی تربیت کی بلکہ نظریاتی تربیت کے لیے انہوں نے ایک نقاد ادیب اور مترجم کی ذمہ داری بھی بڑی جاں فشانی سے نبھائی۔ انہوں نے کئی مضامین اور کتابوں کے تراجم کیے اور کچھ مضامین بھی لکھے جو کہ ان کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔ ان کتابوں میں ایما گولڈ مان کی سوانح حیات سرخ رو میرے لیے سب سے اہم ہے۔ جیسا کہ زاہدہ حنا صاحبہ سرخ رو کے تعارف میں کہتی ہیں ”سچ تو یہ ہے کہ مظاہر صاحب نے جنوں والا کام کیا ہے اور شاید ایما گولڈ مان جیسی باغی متحرک اور بے مثال وفور والی عورت کی خودنوشت کا ترجمہ کوئی ایسا ہی شخص کرسکتا تھا جس میں استقلال اور عزم کا دفینہ ہو“ میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ ایما گولڈ مان جیسی عورت کی سوانح حیات سرخ رو نا صرف میرے ابو نے ترجمہ کی ہے بلکہ وہ میری ماں کے نام بھی کی ہے۔ جنہوں نے بقول ابو کبھی کسی چیز پر اپنا حق ملکیت نہیں جتایا۔

نوے کے اوائل میں ہمارا گھر کچھ عرصہ ترقی پسندادبی رسالے ارتقاء کا پبلشنگ ہاوس بھی رہا۔ میرے والد گھر میں دو کمپیوٹرز ایک پرنٹر اور اردو کمپوزنگ سافٹ وئیر صدف اس وقت لے آئے جب ان سے کوئی واقف نہیں تھا اور یہ بہت مہنگے داموں دستیاب تھے۔ میری والدہ اور بہن مقتدرہ اردو سے ٹائپنگ سیکھنے کے بعد مضامین کی ٹائپنگ کیا کرتی تھیں۔ امی ابو مل کر پیپر پر پروف ریڈنگ کیا کرتے تھے۔ اور میں مضامین کی فارمیٹنگ اور کمپوٹر پر پروف ریڈنگ۔ ان مراحل میں اکثر حسن عابد انکل، راحت سعید انکل اور واحد بشیر انکل بھی ہمارا ساتھ دیتے۔ ابو نے پبلشنگ کمپنی کا نام بھی رکھا تھا۔ نفس پبلشنگ۔ ہمارے ناموں کے پہلے الفاظ پر نرجس فاطمہ فرحت زہرا اور سعادت زہرا۔ اس سے ملنے والے پیسے تین حصوں میں تقسیم ہوتے تھے۔

ابو نے جارج اورویل کی دو کتابوں انیمل فارم اور ہومیج ٹو کیٹلونیا کا ترجمہ بھی ”ریاست سے سیاست“ اور ”سپین کی عوامی جنگ“ کے نام سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو اور تراجم ”برصغیر میں غلامی“ اور ”انسانی تہذیب اور ہم جنس پرستی“ ان کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔
http://www.smmazahir.com/

خالد سہیل صاحب کی میرے والد سے پہلی ملاقات ساوتھ افریقہ میں اس وقت ہوئی جب وہ اور پیاری بیٹی ڈیوس میری بہن کے گھر 2006 میں تشریف لائے۔ اس ملاقات میں سہیل صاحب نے مظاہر صاحب کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا جو یو ٹیوب پر دستیاب ہے۔
https://t.co/NLUt5hhmOS

مجھے ہمیشہ سے اندازہ تھا کہ نظریاتی طور پر لوگوں سے جڑنا بہت اہم ہے کیونکہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے نظریات ہم سے مختلف ہوتے ہیں مگر میری چھوٹی بہن ایسے محفوظ بلبلے میں رہیں کہ ان کا خیال تھا کہ سب ہی لوگ ان کے والد اور گھر کی طرح روشن خیال ہوتے ہیں۔ اور ان کو بارہا تعجب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہم سے جو لوگ ملتے تھے وہ اپنے کو روشن خیال دکھانے کی یا تو کوشش کرتے تھے یا ان کووہ سپیس مل جاتی تھی جہاں وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔

اپنے والد سے متعلق بہت سے اور واقعیات بھی سنا سکتی ہوں مگر اصل مقصد کہنے کا یہ ہے کہ محمد مظاہر صاحب نے وہ کر کے دکھایاجو اس گھٹن زدہ معاشرے میں لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پی آئی اے کی ملازمت میں انہیں دنیا کے بیشتر چکر لگانے کا موقع ملا مگر انہوں نے بتایا کہ روشن خیالی کے لیے بیرون ملک رہنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کراچی کے مضافات میں رہ کر بھی اپنے دائرہ عمل کے اندر وہ تبدیلیاں لا سکتے ہیں جن کو اب صرف انقلابی اقدامات سمجھا جاتا ہے۔

اسی بارے میں
نوید کی گرل فرینڈ
میری جوان بیٹی کا بوائے فرینڈ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).