کسے یاد رہے گا کہ بابے رحمتے نے کیا کارنامے انجام دیے تھے


گنتی کے دن رہ گئے ہیں معدودے چند، یہ بھی گزر جائیں گے اور ویسے بھی سدا کس نے رہنا سوائے اس پاک ذات کے، جو سب کل کا مالک ہے اور جو سب سے عظیم بادشاہ ہے۔ للکارنے والے بھی چلے جائیں گے، بلانے والے بھی گزر جائیں گے اور وہ بھی اپنی کرسی سے اتر جائیں گے جو ہر کس و نا کس کو جب چاہتے بیک جنبش قلم اپنے سامنے لا حاضر کیا کرتے۔ وقت محدود تھا جو سمجھدار تھے، انہوں نے غنیمت جانا، جو ویسے نہ تھے وہ صرف گرجتے رہے، شور مچاتے رہے، خبروں کی زینت تلک ہی محدود رہے، کوئی نمایاں کارنامہ انجام دینے سے یکسر دور، باتیں اور صرف باتیں، بیان در بیان بس۔

عظیم بننا اور عظیم کہلوانے میں فرق ہوتا ہے مگر نادان ایسے کہ بس اسی کو حقیقت جان بیٹھے کہ اگر عظیم کہنے والے موجود ہیں تو یہی کافی ہے مگر یہ بات بھول بیٹھے کہ خوشامدی ٹولے نے اس وقت تک آپ کو عظیم پکارنا ہے جب تک آپ کا اقتدار کا سورج غروب نہیں ہو جاتا۔ ایسے تاریخ میں بھلا تھوڑا ہی رقم ہوا جاتا ہے، ریاضت چاہیے ہوتی ہے، اپنے کام میں مہارت اور پھر اسی میں جتے رہنا اور اس وقت تک لگے رہنا کہ جب زمانہ بھی پکار اٹھے کہ یہ واقعی منصب کے لائق تھا جس نے حق منصبی پوری ذمہ داری سے ادا کر دیا، پھر مؤرخ بھی عظیم لکھے گا اور آنے والا زمانہ بھی عظیم پکارے گا۔

ناسمجھ ہوتے ہیں وہ لوگ، جنہیں پورے چار دن کی بادشاہت کا منصب بھی نہ ملتا کہ خود کو مطلق العنان سمجھتے ہوئے رعایا اور دیگر اداروں پہ قدغن لگاتے ہوئے یہ بھول جایا کرتے ہیں کہ ان کا دراصل کام کیا تھا؟ معاشرے میں کئی ایسے کردار دکھائے دیتے ہیں کہ جو خود کچھ کرنے سے بھی باز رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ میں بھی روڑے اٹکانا باعث ثواب سمجھتے ہیں، جو کام کر رہے ہوتے ہیں ان کے کام میں دخل اندازی کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور یہی حال یہاں کے کچھ اداروں کا بھی ہے یعنی کہ ہم انفرادی طور پر بھی اور اجتعماعی طرز پر بھی پستی کی جانب محو سفر ہیں۔

کچھ لوگوں کو قدرت نوازتی ہے تو بے انتہا نوازا جاتا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ شکر ربی ادا کرتا، اپنے منصب سے انصاف کرتا، ملی ہوئی قوت سے استفادہ کرتا تو رول ماڈل بن جاتا مگر ہم میں سے اکثر صراط مستقیم پہ چلنا نہیں چاہتے، اسی وجہ سے بھٹک جایا کرتے ہیں اور جب گمراہی کے رستے پہ چل نکلتے ہیں تو اپنا فرض بھول کر نوافل ادا کرنا فضیلت سمجھتے ہیں۔ انتہا درجے کا زوال اور تنزلی ہی ہے کہ جب کوئی منصب سے جانے کو ہو اور کئی لوگ شادیانے بجا رہے ہوں، مٹھائیوں کے آرڈر کیے جا رہے ہوں، خوشی میں پارٹیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہو، خود پہ بھی بوجھ ہو اور ضمیر بھی ناخوش ہو تو پھر ناکامی ہے، نجانے حضرت انسان کیوں کچھ نہیں سمجھتا، ذرا اپنے پیشروؤں کے حال کو دیکھ کر سبق حاصل کر پاتا مگر یہ سدا کا جاہل ہے، اس لیے حماقتیں کیے جاتا ہے اور پھر تباہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے تو پچھتاوا ہوتا ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

خدمت کرنے کا موقع جو گنوا بیٹھتے ہیں، وہ بھلا عقلمند تھوڑا ہی ہوتے ہیں، نری بے وقوفی ہی ہے کہ قدرت نے نوازا مگر خود کو اہل بنانے کی بجائے دوسروں کو بھی نا اہل کرتے پھریں، بار بار ایسے چانس نہیں ملا کرتے، دانا ہوتے ہیں جو موقع سے بروقت اور بھرپور فیض یاب ہوجاتے ہیں۔ کرسی کا نشہ ہمیشہ نہیں رہتا مگر انسان اس بے وفا چیز پہ بیٹھ کر نکمی اکڑ دکھاتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ اس سے قبل بھی یہاں کوئی تشریف فرما تھا جو قصہ پارینہ بن چکا ہے اور مستقبل میں کرسی اس سے بھی بے وفائی ضرور کرے گی، پھر بھی چمٹا رہتا ہے تاوقتیکہ کرسی دغا نہ دے جائے یا اقتدار منصبی کا سورج غروب نہ ہوجائے۔

الٹی گنتی شروع ہے، کرسی کا نشہ ہرن ہونے کو ہے، اقتدار کی دنیا کی چکا چوند بجھنے کو ہے، وقت عصر سے اوپر کو ہو چلا ہے، کسی بھی لمحے اقتدار کا سورج غروب ہو سکتا ہے اور پھر یہ ساری روشنیاں گل ہو جائیں گی، میڈیا کی چکا چوند ختم، وہ اخبار کی شہ سرخیوں سے نام غائب ہو جائے گا اور پھر کسے یاد رہے گا کہ بابے رحمتے نے کیا کارنامے انجام دیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).