پانچ ایسی خواتین جن کا نام اور کام موسیقی کی تاریخ سے مٹا دیا گیا
کیا آپ نے کبھی فلورنس بی پرائس، ماریانا مارٹینس، آگسٹا ہومز، لیوکادیا کاشپرووا یا جوانا ملر ہرمین کا نام سنا ہے؟
یہ سب اپنے دور کی مشہور موسیقار تھیں جنھیں زندگی میں خاصا مقام ملا لیکن مرنے کے بعد انھیں بھلا دیا گیا اور ان کے کام کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کیا جاتا رہا۔
لیکن اب ایسا نہیں رہا۔
بی بی سی ریڈیو اور یوکے آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز ریسرچ کونسل نے لائبریریاں، آرکائیوز اور ذاتی کتب خانے چھان کر ان خواتین کی موسیقی کے نمونے ڈھونڈ نکالے ہیں جہاں یہ برسوں سے گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض نمونے ایسے ہیں جنھیں کبھی پرفارم نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے بعد تحریری موسیقی کے ان نمونوں کو بی بی سی کے آرکیسٹرا نے ریکارڈ کیا، اور یوں کئی عشروں کے بعد ان بھولی بسری خواتین کو موسیقی کے میدان میں ان کا حق دلوانے کی راہ ہموار کی۔
یہ خواتین کون تھیں؟
فلورنس بی پرائیس (1887-1953)
فلورنس پرائیس کا تعلق ایک دولت مند افریقی امریکی خانوادے سے تھا اور انھوں نے موسیقی کے میدان میں کئی انعام حاصل کیے تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی سیاہ فام خاتون تھیں جو کسی پروفیشنل آرکیسٹرا کا حصہ بنیں۔
وہ امریکی ریاست آرکنسا میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کی موسیقی اس وقت شائع ہونا شروع ہو گئی جب ان کی عمر صرف 11 برس تھی۔ 1903 میں انھوں نے پیانو بجانے کا ڈپلوما حاصل کیا۔
تاہم انھیں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے میوزک ٹیچر ایسوسی ایشن کی رکنیت نہیں دی گئی۔
1925 اور 1927 میں پرائیس نے اپنی سمفنی پر ہولسٹن انعام حاصل کیا۔
آج ہم پرائیس کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ ہم تک ڈاکٹر شرلی ٹامپسن کے توسط سے پہنچا ہے جو یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں پڑھاتے تھے اور خود بھی موسیقار تھے۔ انھوں نے پرائیس کی زندگی اور موسیقی پر تحقیق کی ہے۔
مارینا مارٹینیس (1744-1813)
ماریانا مارٹینیس کا تعلق آسٹریا سے تھا اور وہ نہ صرف اپنے دور کی عمدہ گلوکارہ تھیں بلکہ پیانو بجانے میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔
وہ مشہور موسیقار جوزف ہائیڈن کے ساتھ پلی بڑھیں۔ انھیں نے پیانو بجانے میں کمال حاصل کیا اور اس ساز کے لیے موسیقی کے کئی نمونے تحریر کیے۔
کہا جاتا ہے کہ شہرۂ آفاق موسیقار موزارٹ (اصل تلفظ موتسارٹ) نے بھی ان کے سیلون میں پیانو بجایا تھا۔
انھیں زندگی میں تو یورپ بھر میں شہرت ملی لیکن مرنے کے بعد ان کا نام فراموش کر دیا گیا۔ تاہم اب پروفیسر جیرمی لیولن نے مارٹینس کے کام کو ازسرِنو روشناس کروانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
یہاں ان کا ترتیب دیا ہوا موسیقی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے جسے انھوں نے آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹریزا کی موت پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھا تھا۔
مارٹینس کا تخلیق کردہ سوپرانو سنیے جسے 2018 کے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر پیش کیا گیا
لیوکادیا کاشپیروا (1872-1940)
لیوکادیا کاشپیرووا کا تعلق روس سے تھا اور وہ بھی پیانو بجانے کی ماہر تھیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ہر قسم کی موسیقی بھی تخلیق کی، جن میں چیمبر میوزک اور نغمے بھی شامل ہیں۔
تاہم کاشپیرووا کا فنی سفر اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب ان کی شادی ایک بالشویک انقلابی سے ہو گئی۔
انھیں اپنے گھر سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا اور بعد میں کاشپیرووا خفیہ طور پر ماسکو میں موسیقی تحریر کرتی رہیں لیکن یہ کبھی شائع نہیں ہو سکا۔
آج روس میں بھی انھیں صرف عالمی شہرت یافتہ موسیقار سٹراونسکی کی استاد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر گریم گریفتھ کاشپیرووا کی موسیقی پر تحقیق کر رہے ہیں اور وہ اس صورتِ حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک ان کی شہرت کا سارا دارومدار بدقسمتی سے سٹراونسکی کی استاد کی حیثیت پر تھا۔ اور سٹراونسکی نے اپنی تحریروں میں انھیں دقیانوسی اور بدھو قرار دیا ہے۔‘
ڈاکٹر گرفتھ کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کاشپیرووا نہ صرف زبردست پیانو نواز تھیں بلکہ موسیقار کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتی تھیں۔
کاشپیرووا کی 1905 میں تخلیق کردہ سمفنی کا ایک حصہ جسے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر پیش کیا گیا
آگسٹا ہومز (1847-1903)
آگسٹا فرانس میں پیدا ہوئیں تاہم ان کے والدین کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔
انھیں بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا تاہم ہومز کے والدین نے ان کی موسیقی کے میدان میں کریئر بنانے میں حوصلہ شکنی کی اور ان کے مرنے کے بعد ہی ہومز کو اپنا شوق جاری رکھنے کا موقع مل سکا۔
ہومز تخلیقی ذہن کی مالک تھیں اور لگی بندھی روایتی لکیر سے ہٹ کر کام کرتی تھیں۔
ہومز پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر اینسٹیزیا بیلینا جانسن کا کہنا ہے کہ ’ہومز نے ایسی موسیقار کی حیثیت سے مقام بنایا جو جذبات سے عاری کام پیش کرنے کا عادی ہو۔ درحقیقت، ان کے کام کو اکثر ’مردانہ‘ قرار دیا گیا ہے۔‘
وہ پہلی خاتون تھیں جن کا پیرس میں 1895 میں اوپیرا پیش کیا گیا جسے 1200 شائقین دیکھنے کے لیے آئے۔
جوانا ملر ہرمین (1868-1941)
جوانا ملر ہرمین کا تعلق آسٹریا سے تھا۔
وہ پرائمری سکول کی استانی تھی لیکن شادی کے بعد انھوں نے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔
انھیں آکیسٹرا، چیمبر میوزک اور ان کے نغموں کے لیے جانا جاتا تھا۔
انھوں نے مشہور موسیقار الیکساندر زیملنسکی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور 1918 میں نیو ویانا کنزرویٹری میں بطور معلم شمولیت اختیار کر لی۔
تاہم اس ادارے میں 20 برس تک موسیقی کا درس دینے کے باوجود آج ان کا نام گمنامی کی گرد تلے دب گیا ہے۔
ڈاکٹر کیرولا ڈارون نے ملر ہرمین کی زندگی پر تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس دور کے ویانا کی موسیقی میں خواتین کے کردار کو بڑی حد تک بھلا دیا گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جوانا ملر ہرمین کا کام اس قابل ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر جانا اور پہچانا جائے۔ صرف ان کی معیار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے بھی کہ وہ ویانا کے زبردست تخلیقی دور کا لازمی جزو ہے۔‘
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).