سفید برف، سرخ کوٹ اور میرا باپ


اس دن خاصی برف پڑی تھی۔ جیل کے آہنی مرکزی دروازہ سے وہ عمارت، کہ جہاں میں بطور تھراپسٹ کام کرتی ہوں، چلتے ہوئے میرے دھنستے پاﺅں برف کی دبیز مگر نرم سفید تہہ پر جوتوں کے نشانوں کی لمبی لکیر بناتے رہے۔

عمارت کی راہداری میں دیکھا تو میری نظر آئی۔ وہ یہاں جیل میں سوشل ورکر کا کام کرتی ہے۔ وہی شکست خوردہ، بوجھل قدموں کے ساتھ چلتی، چہرے پر طاری ازلی اُداسی سمیٹے، حلیے میں بھی معمول کے مطابق بے زاری۔ باوجود اس کے کہ مجھے اپنی طرف شوخ وشنگ اورہنستے مسکراتے لوگ پسند ہیں، میری جیسے لوگوں کی اُداسی اور تنہائی مقناطیس کی طرح کھینچتی ہے۔ میں نے خیریت پوچھی، جواباً وہ مسکرا دی۔ چونکہ امریکا میں عموماً بات موسم کی شکایت سے شروع ہوتی ہے۔ میں نے بھی کہنا شروع کیا ”میری پوری عمر پاکستان کے شہر کراچی میں گزری ہے، جہاں لوگ سردیوں میں بس شوقیہ جاڑا منانے کے لیے سوئیٹر پہن لیتے ہیں۔ مشی گن کی سردی تو ان کے اوسان خطا کر دے۔“

میری نے کہا ”میں تو یہاں نو برس کی عمر میں آئی تھی مگر آج تک اس برف کو قبول نہ کرسکی۔“ اس نے مختصر جواب دیا۔

”تم ہی نہیں سردی اکثریت کو بے آرام اور بیزار کردیتی ہے جب ہی تو یہاں کے رہنے والے بڑھاپے میں فلوریڈا اوردوسری گرم اسٹیٹس میں جابستے ہیں۔“ میں نے لقمہ دیا۔

”نہیں یہ بات نہیں …. برف مجھے اُداس کردیتی ہے۔ یہ وہ اُداسی ہے جومیرے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔“ یہ پہلی بار میری نے اپنے محسوسات کے متعلق لب کشائی کی تھی۔ مجھے لگا آج موسم کی پہلی برف باری جیسے اس کے اندر کی گھٹن کوآگ لگانے پر تلی بیٹھی ہے اوروہ اس کا دھواں اُگلنے کو تیار ہے۔ مجھے لگا جیسے اس کی خموش ڈھکی چھپی شخصیت اظہار کے باب میں برہنگی پر اُتر آئی ہے۔

اس نے بتایا کہ ”ویسے تو وہ بیروت (لبنان) سے آئی ہے مگر دراصل وہ مختلف قومیتوں کا ملاپ ہے۔ مثلاً یہ کہ ”میری نانی کا تعلق گھانا سے تھا جہاں وہ نرس تھی اورمیرا نانا دوسری جنگِ عظیم کے ویلز سے گھانا ریل روڈ کی تعمیر کے لیے آیا تھا۔ ان دونوں کے ملاپ سے میری ماں کی پیدائش ہوئی یعنی وہ ”وار بے بی“ تھی۔“ میں مسکرا دی۔ جنگیں بھی محبت اور تخلیق کا بیج ڈال جاتی ہیں۔

”میرا نانا میری ماں کو دو برس کا چھوڑ کر دوبارہ ویلز چلا گیا اور پھر نوجوانی میں میری ماں کا ٹکراﺅ میرے باپ سے ہوا جس کے باپ لبنانی اور ماں ترک تھی۔ میرا باپ بہترین ویٹ لفٹر تھا جس کو 1952ء کے اولمپکس میں گولڈ میڈل ملا تھا۔ وہ دُنیا بھرمیں گھومتا پھرتا گھانا گیا۔ وہاں میری ماں پر دل آ گیا اور شادی کر لی۔ میری ماں عیسائی تھی اور باپ مسلمان۔ وہ ابھی تین سال پہلے ہی مرا ہے مگر میں نے اس کے جنازہ میں شرکت نہیں کی۔“ وہ ایک لمحہ کوچپ ہوگئی۔

”کیوں بھلا؟“ مجھ سے رہا نہ گیا

اس نے اپنے گلے سے مفلر ہٹایا۔ ”یہ نشان دیکھ رہی ہو۔ وہ ایک دن میری جان لے رہا تھا۔“

میں نے کہنہ زخم کا نشان دیکھا جیسے کسی نے گلے پر چھری پھیری ہو۔

کیوں کہ میں نے اس کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کردیا تھا۔ اس مرد کو ٹھکرادیا تھا جواس کی پسند تھی۔ لبنان کا مسلمان…. آخر میں اس کے اشاروں پر کب تک ناچتی؟ میرے باپ کا کہنا تھا کہ اسلامی کلچر میں لڑکیاں باپ کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کر سکتیں۔ ہم تینوں بہن بھائیوں اور ماں کو زبردستی روزے رکھواتا رہا، نمازیں پڑھواتا اور حکم عدولی پر تشدد کا نشانہ بناتا ہا….سور کا بچہ“ وہ غصہ میں تھی۔

میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا ”کیا کیا کرتا تھا؟“

اس نے کہا ”یہ پوچھو کیا نہیں کرتا تھا۔“ پھر اس نے بتانا شروع کیا۔ ”میرا گھرانہ بیروت (لبنان) سے 1968ءمیں آیا۔ یہاں نقل مکانی کی ایک وجہ تویہ تھی کہ میری ماں کواس کے سسرال والوں نے کالے رنگ کی وجہ سے کبھی قبول نہ کیا، وہ اسے ”نگر“ (Niger) کہتے تھے۔ اس وجہ سے وہ بیروت میں نہیں رہنا چاہتی تھی اورمیرا باپ افریقہ نہیں جانا چاہتا تھا۔ ایسے میں میری پھوپھی نے جو امریکا میں بسی ہوئی تھی ہمارے گھرانے کو اپنی ذمے داری پر امریکا بلوا لیا۔ یہاں میرے باپ نے ایک بیکری شروع کی، جس میں میری ماں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی رہتی۔ نہ کرتی تو کیا کرتی۔ زندگی کا سوال تھا۔ امریکا میں بسنا آسان تو نہیں، اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ اس کی شدید مصروفیت کے اوقات میں بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ وہ ہمیں دیکھتی تو کماتی کیسے؟ میں نو سال کی تھی، بڑا بھائی گیارہ اور چھوٹا پانچ برس کا۔ اکثر ہم اکیلے ہوتے اور کبھی میرا باپ بھی ہوتا ہماری خبرگیری کو، مگر کسی کو کیا پتا کہ وہ کیا کررہا ہوتا تھا۔“

”کیا؟“ میں نے پوچھا۔

”جانے کیوں آج کی برف باری دیکھ کر میرے زخم ہرے ہوگئے ہیں۔ اچھی طرح یاد ہے میری عمر نو برس کی تھی۔ موسم کی پہلی برف باری شروع ہوئی، میں نے اپنا سرخ گرم کوٹ پہنا، گلے میں مفلر لپیٹا اور دونوں بھائیوں کے ساتھ باہر برف سے کھیلنے چلی گئی۔ بے داغ ملائم سفید برف جس پر میرا سرخ کوٹ کا امتزاج بھلا لگ رہا ہوگا۔ یقیناً میرے سرخ سفید گال کچھ اور حسین ہو گئے ہوں گے۔ میں موسم کا لطف لے رہی تھی کہ میں نے دیکھا میرا باپ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ مجھے اچھا لگا کیونکہ ایسا کم ہی ہوا، اس کا معمول تو میری سادہ لوح محنتی ماں پر دھاڑنا اورغصہ میں اس کو مارنے پر لپکنا تھا۔

ہنستے مسکراتے ہوئے وہ میرے پاس بھی آیا، مجھے گلے سے لگایا، بھینچ کے پیار کیا اور کہا اب گھر چلو ورنہ بیمار پڑ جاﺅ گی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی، آخر کو وہ میرا باپ، میرا محافظ تھا۔ کمرے میں آکر اس نے میرے کوٹ کے بٹن کھولے اور پھر مساج کرنے لگا۔ پہلے ہاتھوں میں اورپھر پیروں اور پھر وہی رات تھی کہ جب وہ رات کو میرے کمرے میں آیا اور مساج کرتے کرتے مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پھر باقاعدگی سے وہ یہ عمل پانچ سال کرتا رہا۔ اس کو جنس کا نشہ تھا اور ماں کو کام کا۔ جب وہ کام کرتا تو باور کرواتا کہ چونکہ وہ میرا باپ ہے لہٰذا اس کا حکم ماننا میرا فرض ہے اور یہ سب غلط نہیں۔

اس نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی کو بتایا تو وہ مجھے قتل کر دے گا۔ اس طرح میں مسلسل جنسی جسمانی اور جذباتی تشدد کا شکار بنتی رہی، حتیٰ کہ چودہ سال کی عمر میں میں نے کمرے کو مقفل کرنا شروع کردیا۔ اس قفل نے میرے اظہار پر پڑے تالے کو نہیں توڑا۔ بجائے خموشی توڑنے کے میں اسکول کے قوانین توڑتی۔ میں نے بچوں سے لڑنا شروع کر دیا۔ اکثر کمزور اور بے بس بچوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتی، خاص کر اسپیشل ضرورت والے معذور بچے جو اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہوتے۔ اکثر ہی پرنسپل کے آفس میں بلائی جاتی۔ اپنے محسوسات کو سن کرنے کے لیے نشہ کرنا شروع کر دیا۔ ماروانہ سے شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ دوسری منشیات بھی استعمال کرنے لگی۔ میں باپ کے ہاتھوں سے نکل کر نشہ کی گود میں جا بیٹھی۔

اپنے غم، غصہ اور بے بسی سے نپٹنے کے لیے۔ میں پاور اور کنٹرول (طاقت سے قابو پانا) کا وہی کھیل اسکول میں بچوں کے ساتھ کھیلتی جو میرا باپ سالوں سے میرے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ہائی اسکول میں لڑکوں سے دوستی کوئی بات نہیں تھی۔ جنسی عمل کوئی حیرت کدہ نہیں رہا تھا۔ تاہم میرا باپ میرے کچے جسم کی لذت سے محروم تلملاتا ہوا میرے لیے لبنانی لڑکے تلاش کر رہا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ اب میں اس کے ”بند کلچر“ کا حصہ نہیں رھی تھی۔ میں خود مختار ملک کی شہری تھی۔ تمام منفی باتوں کے باوجود میں پڑھائی میں اچھی تھی۔ میں نے اس کی مرضی کے خلاف کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا۔

یہی وہ زمانہ تھا کہ ایک دن میرے شادی سے انکار پر اس نے غیرت کے نام پر قتل کرنے کی ٹھان لی۔ وہ کچن سے چھری اُٹھا لایا اور میری ماں کے سامنے میرے گلے پر چھری پھیر کر قتل کرنے کی کوشش کی۔ میں نے بھاگ کر جان بچائی۔ اب میں نے اکیلے رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جب سے آج تک اکیلی ہی ہوں۔ ہاں میری زندگی کا تجربہ میرا ساتھی ہے۔ جنسی اورجسمانی تشدد کا تجربہ جس نے مجھے بے وقعتی، غصہ، فرسٹریشن اوربے بسی دی۔ منشیات کا عادی بنا دیا۔ مگر کسی طور کام کے ساتھ پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوشل ورک کی ڈگری نے میرے سوچنے کے طریقہ اور اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ اپنے نشہ کی وجہ سمجھ آئی تو اس کو تیاگ دیا۔

میرے تلخ تجربوں نے مجھے ان نشہ کے عادی جرائم پیشہ نوجوانوں کے غموں سے آشنا اور قریب کردیا۔ ان کی کہانیاں مجھ سے مشابہہ ہیں۔ میں ان کو ہمت، طاقت اور وہ ذرائع دیتی ہوں کہ جو ان کو دوبارہ جینا سکھائیں۔ میں ان کو اس تشدد کے چکر سے نکالنا چاہتی ہوں کہ جس کا سلسلہ اسی سفید برفیلے دن اور سرخ کوٹ سے شروع ہوکر انسانیت کی پامالی پر ختم ہوا۔“

(یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ رازداری ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نام بدل دیئے ہیں۔ متعلقہ افراد سے اشاعت کی اجازت لی گئی ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).