کہیں سے ’’پیلی جیکٹوں‘‘ والے نمودار نہ ہو جائیں


تحریک انصاف کے چند وفاقی اور صوبائی وزراء نے اپنے سیاسی مخالفین کو خوب لتاڑنے کے بعد اب صحافیوں کو راہِ راست پرلانے کے لئے جو زبان اختیار کررکھی ہے، میں اس کے بارے میں ہرگز حیران و پریشان نہیں ہوں۔

امریکی صدر ٹرمپ کا رویہ بھی ایسا ہی ہے۔ وہ اپنے میڈیا کو مسلسلFake News پھیلانے کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے ’’عوام دشمن‘‘ قرار دیتا ہے۔اس کے چاہنے والوں کو لیکن اب بھی یقین ہے کہ وہ واشنگٹن پر کئی دہائیوں سے قابض ’’اشرافیہ‘‘ کا دشمن ہے۔روایتی اشرافیہ نے اپنی پالیسیوں سے امریکہ کے دارالحکومت کو ایک جوہڑ (Swamp) میں تبدیل کردیا تھا۔

ٹرمپ غیر روایتی سیاست کی بدولت وائٹ ہائوس پہنچ کر اب اس جوہڑ کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہے۔ ’’صفائی‘‘ کا عمل بہت لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ واشنگٹن کو جوہڑ میں تبدیل کرنے والوں کو لہذا اب ذلت ورسوائی برداشت کرنا ہوگی۔تحریک انصاف کا اپنی Core Constituencyجسے امریکی Baseکہتے ہیں کے لئے بنیادی پیغام یہ ہے کہ 2008 سے پاکستان میں آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ نے حکومت میں باریاں لیں۔

سیاسی قوت واختیار کو اپنی ذات،خاندان، دوستوں اور چمچوں کے لئے بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لئے استعمال کیا۔یہ دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئی جہاں اس دولت کو قیمتی جائیدادیں خریدنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ہمارے صحافیوں کی بے پناہ اکثریت ’’لوٹ کھسوٹ‘‘ کے اس سلسلے کے بارے میں ’’لفافے‘‘ لے کر خاموش رہی۔ انہیں اب ملکی معاملات پر دانشوی بگھارنے کا موقعہ نہیں دیا جا سکتا۔

میڈیا اور سیاسی مخالفین کو سخت زبان کے استعمال سے ان کی اوقات میں رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے بلندآہنگ وزراء اپنی Baseکو مطمئن رکھنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ ان کے دلوں میں ’’نظام کہنہ‘‘ کے خلاف جمع ہوئی نفرت کو بھڑکائے رکھتے ہیں۔اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر ہوئی تقسیم کو برقرار رکھنے کے لئے ان وزراء کی جانب سے اختیار کیا رویہ مگر یہ حقیقت دیکھنے میں ناکام ہے کہ ٹرمپ کے امریکہ میں گزشتہ چھ مہینوں میں بے روزگاری 4 فی صد سے بھی کم ہوگئی ہے۔

روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی کرنسی بہت مضبوط ہے۔ حال ہی میں وہاں کے اسٹیٹ بینک نے بینکوں میں رکھی رقوم پر شرح سود جسے وہ منافع کہتے ہیں میں اضافہ کیا ہے۔اس کی وجہ سے دنیا بھر کے کئی سیٹھ اپنے اور دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کے بجائے امریکی بینکوں میں رقوم جمع کروا رہے ہیں۔

انکے جاری کئے ٹریژری بل خرید رہے ہیں۔ امریکی معیشت میں اس وقت جو رونق لگی نظر آرہی ہے اس کے ہوتے ہوئے ٹرمپ کو اپنے رویے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ اس رونق کے ہوتے ہوئے بھی حال ہی میں امریکہ کی قومی اسمبلی کے لئے جسے وہاں House کہا جاتا ہے جو انتخابات ہوئے ان میں ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

نئی منتخب ہوئی اسمبلی پر یہ دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے مختلف مالی معاملات اور روس کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے مواخذے کی راہ پر چلے۔ اس سے نجات دلائے۔ اپنے مواخذے کے خوف کی وجہ سے ٹرمپ اپنی Base کو مطمئن کرنے کے لئے شام سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا اعلان کرنے کو مجبور ہوا۔

افغانستان کی جنگ سے نجات پانے کی راہ بھی ڈھونڈرہا ہے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے معاملے پر ڈٹا ہوا ہے۔ اگرچہ اس وجہ سے وفاقی حکومت کے ملازمین کو تنخواہ نہیں مل پارہی ہے۔ ریاستی کاروبار Shut Downکی اذیت برداشت کررہا ہے۔

تحریک انصاف کو معاشی محاذ پر رونق کی سہولت میسر نہیں ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گرانقدر اضافہ ہوچکا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 30 فی صد تک گرانے کے باوجود ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔اس حکومت کے پہلے چھ مہینوں میں ٹیکسوں کے ذریعے وہ رقوم حاصل نہیں ہوئیں جن کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

ہماری ریاست کی آمدنی اور خرچ میں ناقابل برداشت فرق کو ذرا کم کرنے کے لئے تحریک انصاف کو آئندہ ہفتے کسی بھی وقت قومی اسمبلی میں ’’منی بجٹ‘‘ پیش کرنا ہوگا۔ اس کے ذریعے کم از کم 190ارب روپے جمع کرنے کے لئے چند نئے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ یہ کرنے کے باوجود بھی IMFسے ایک Bailoutپیکیج کے لئے رجوع کرنا ہوگا۔

کوئی رقم دینے سے پہلے IMFہم جیسے ملکوں سے Course Correctionاور Reformکے بہانے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کرتا ہے۔ حکومتی خرچ کو کم کرنے پر زور دیتا ہے جس کی وجہ سے نئی سڑکوں ،ہسپتالوں یا سکولوں کی تعمیر ممکن نہیں رہتی۔ ’’ترقیاتی فنڈز‘‘ پر Cutلگانے کی مجبوری لاحق ہوجاتی ہے۔

میرے ا ور آپ جیسے عام شہری کے لئے اہم ترین مسئلہ مہنگائی ہوا کرتی ہے۔ہم اگر اپنے بجلی اور گیس کے بلوں کو ناقابل برداشت پائیں۔ اپنے بچوں کی فیس ادا کرتے ہوئے سوبارچیں تو اس حقیقت کا لطف اٹھانا ناممکن ہوجاتا ہے کہ نواز شریف جیسے ’’چور اور لٹیرے‘‘ احتساب عدالت سے سزائیں پاکر جیل جاچکے ہیں۔

آصف علی زرداری سے منسوب ’’جعلی اکائونٹس‘‘ پکڑے گئے ہیں۔وہ خود کو احتساب کی شدت سے مزید بچا نہ پائیں گے۔عام شہری Here and Now والی حقیقتوں کا محتاج ہوتا ہے۔اپنی روزمرہ زندگی کی مشکلات میں الجھا ہوا۔ حکومتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کو مطمئن رکھنے کے لئے معاشی محاذ پر کسی نہ کسی طرح کی رونق کا ماحول پیدا کرے۔

تحریک انصاف کی حکومت یہ دریافت کرنے میں مسلسل ناکام ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے 5ماہ گزرنے کے بعدبھی وہ کوئی ’’رونق‘‘ لگانے میں ناکام رہی ہے۔تحریک انصاف کا بنیادی وعدہ یہ بھی تھا کہ اس کی حکومت میں شامل افراد اپنے عہدے کو اپنے کاروبار بڑھانے کے لئے استعمال نہیں کریں گے۔ حقیقت جو بھی رہی ہو رزاق دائود کی کمپنی کو مہمند ڈیم کا ٹھیکہ ملنے کے ضمن میں وہ یہ وعدہ نبھاتی نظر نہیں آئی۔

اعظم سواتی نے اپنے اختیار سے جو گل کھلائے وہ سپریم کورٹ میں نمایاں ہوگئے۔پنجاب کی ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ ’’تبدیلی‘‘ کی بہت بڑی علامت شمار ہوا کرتی تھیں۔ان کی کارکردگی پربھی مایوسی کا اظہار ہوا ہے۔معاشی میدان میں رونق لگی نظر نہ آئے تو فرانس جیسے تہذیب کی علامت شمار ہوتے ملک میں بھی ’’پیلی جیکٹوں والوں کی تحریک‘‘ شروع ہوجاتی ہے۔

فرانس کا صدر بھی روایتی سیاست دان نہیں تھا۔ وہ ’’تبدیلی‘‘ کا وعدہ کرتے ہوئے ایوانِ صدر پہنچا تھا مگر اب ہرویک اینڈ پر پیرس میں آنسو گیس چلتی ہے۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاکتوں کی خبریں آتی ہیں۔فرانس میں جو ’’پیلی جیکٹوں‘‘ والے نمودار ہوئے ہیں وہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے نفرت کرتے ہیں۔

ہمارے سیاسی منظر نامے کو تحریک انصاف احتساب کے نام پر نوازشریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ فرض کیا وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو بھی معاشی میدان میں رونق لگائے بغیر اس ملک میں یک جماعتی نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔

کہیں سے ’’پیلی جیکٹوں‘‘ والے نمودار ہوجائیں گے اور جمہوریت کے نام پر قائم ہوئے سارے نظام کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔اس تباہی سے تحریک انصاف بھی محفوظ نہ رہ پائے گی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).