امریکی وکیل زینب احمد جس سے دہشت گرد دہشت کھاتے ہیں


۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ کے 2016 کے انتخابات میں روس کی مداخلت کے متعلق تحقیقات کرنے والے سپیشل کونسل رابرٹ میولر کی ٹیم میں شامل ایک پاکستانی وکیل بھی ہے جس کا نام زینب احمد ہے۔ زینب احمد اس ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے ایسٹرن ڈسٹرکٹ آف نیویارک، کر یمینل ڈویژن میں اسسٹنٹ اٹارنی اور نیشنل سکیورٹی اینڈ سائبر کرایم سیکشن کی ڈپٹی چیف تھی۔ رابرٹ میولر کی ٹیم میں امریکہ کے 17 چوٹی کے وکیل شامل ہیں۔

نیویارک میں فیڈرل پر اسی کیوٹر کے طور پر کام کر تے ہوئے زینب کی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی جب اس نے ہا ئی پر و فائل دہشت گردوں پر مقدمات دائرکر کے عدالت سے سزائیں دلوائیں تھیں۔ نیو یارکر میگزین میں مئی 2017 میں شائع ہونیوالی اس کی پروفائل کے مطابق زینب نے تیرہ دہشت گردی کے مقدمات کو 2009 سے لڑا، اور ایک بھی مقدمہ وہ نہیں ہاری تھی۔ مقدمات کی تیاری کے لئے اس کو کئی ممالک کا سفر کرنا پڑا جہاں اس نے خطرناک دہشت گردوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرتن تنہا انٹرویو لئے، جیلوں میں گواہوں کے بیانات لئے، غیر ممالک کے سرکاری افسران سے گفت و شنید کی۔

زینب احمد کے ایک سابق سپر وائزر کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ میں وہ واحد پراسی کیوٹر ہے جس نے القاعدہ کے ممبران، اور دہشت گردوں سے گفتگو کر نے کے لئے ہزاروں میل اور درجنوں ممالک کے اسفار کیے ہیں۔ جیسے افغانستان، پاکستان، یمن، عراق، سعودی عرب، شام، تیونس، الجیریا، نائیجر، کینیا، کینیڈا، ٹرینیڈاڈ، گی آنا، اور برطانیہ۔ 2016 میں چیبانی Cheibaniکے خلاف مقدمے میں وہ نائیجر اور مالی سے سترہ گواہوں کو نیویارک لے کر آئی تھی۔

مثلاً زینب نے صدر ٹرمپ کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (جنرل) مائیکل فلن پر مقدمہ دائر کیا، جس نے plea deal داخل کر کے سرکار سے تعاون کیا تھا۔ اسی طرح ویسٹ پوانٹ پر واقع امریکی ملٹر ی اکیڈیمی میں combating terrorism centerکے اخبار CTC Sentinel کے مطابق نومبر 2015 میں زینب نے پا کستانی القاعدہ آپر یٹو یونیورسٹی آف پشاورکے گریجوایٹ عابد نصیر جس پر الزام تھا کہ اس نے ما نچسٹر ( برطانیہ) میں شاپنگ سینٹر پر کار بمبنگ کا پلان بنایا تھا، اس کوبرطانیہ سے نیویارک لا کر عدالت سے 40 سال کی سزا دلوائی تھی۔

ایک اور مقدمہ زینب نے نائیجریا کے شہری بابا فیما کے خلاف دائر کیا جس نے انور الاولاکی کی ہدایت پر القاعدہ کو عرب ممالک میں مدد فراہم کی تھی۔ ٹیکساس کی رہائشی مو ہندمحمود الفارخ نے القاعدہ کے ہائی رینکنگ لیڈر کی حیثیت سے افغانستان پاکستان کی سر حد پر میٹریل سپورٹ فراہم کی تھی۔ الحسن اولد محمد جو مالی (افریقہ) کا رہنے والا تھا اس نے نا ئیجر میں امریکہ ملٹری اتاشے ولیم بلٹے مائرکو قتل کیا تھا۔ اسی طرح جن دیگر دہشت گروں کے خلاف اس نے مقدمات جیتے ان میں عبد القادر اور رسل ڈیفرائٹس شامل ہیں جنہوں نے 2007 میں جان ایف کینیڈی ائرپورٹ پر حملہ کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ ان دونوں کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔

زینب احمد نے مئی 2017 میں نیویارکر میگزین کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس کی پرورش لانگ آئی لینڈ کے مضافات نا سا کاؤنٹی میں والد، سوتیلی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ مین ہاٹن (نیویارک) میں کچھ وقت اس نے اپنی والدہ محترمہ جمیل کے ساتھ بھی گزارا تھا۔ خوبرو اور خوش اسلوب جمیل پیشہ کے لحاظ سے انشورنس کمپنی میں کمپیوٹر پروگرامر تھیں۔ زینب کی دراز قد سوتیلی والدہ نسرین احمد Hampsteadin شہر میں ٹاؤن کلرک تھیں۔

وہ نیویارک سٹیٹ میں پہلی منتخب آفیشل تھیں جس کا تعلق ساؤتھ ایشیا سے تھا۔ اس کے والدیو نیورسٹی آف پشاور کے گریجوائٹ نعیم احمد ریٹائرڈ انجئیر ہیں جن کا تعلق نیویارک کی احمدیہ کمیونٹی سے ہے۔ اس کے والدین پنجاب پا کستان سے ہجرت کر کے پہلے کینیڈا آئے۔ جب اس کے والدکو اپنے پیشے میں ملازمت نہ ملی تو وہ نیویارک چلے گئے۔ بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں زینب اکثر پاکستان اور انگلینڈ میں گزارا کرتی تھی۔ زینب کا کہنا ہے کہ پا کستان میں چھٹیاں کزنز کے ساتھ مہم جو ہوتی تھیں جبکہ برطانیہ میں اس کو نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس کے والد کا کہنا ہے کہ والدین کے درمیان جب وہ تنازعہ کا باعث ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کتابیں حاصل کرنا چاہتی تھی۔ بچپن سے ہی وہ کتابوں کی رسیا تھی۔ اس کی تمام سہیلیاں شروع سے ہی یہودی تھیں کیونکہ اس کے والد نے نصیحت کی تھی کہ تمام بچوں کے ساتھ کھیلو چاہے وہ عیسائی یا یہودی ہوں۔ وکیل بننے کے بعد بعض دفعہ وہ اپنے آئیڈیاز اورخیالات کا اظہار اپنے والد سے کرتی ہے تا معلوم ہوسکے کہ ان کا کیا خیال ہے۔

جہاں تک اس کی تعلیم کا تعلق ہے زینب احمد کا ارادہ ہاسپٹل ایڈ منسٹریشن میں کا رنیل یو نیورسٹی سے ڈگری حاصل کر نے کا تھا۔ مگر ستمبر 2001 کے نیویارک پر حملوں کے بعد اس نے بی اے 2002 میں کارنیل یو نیورسٹی سے کیا اور 2005 میں کو لمبیا لاء سکول سے جے ڈی Juris Doctorکی ڈگری حاصل کی۔ ا نتالیس سالہ زینب احمد کی شادی اردن کے ایک شخص سے ہوئی جو کہ طلاق پر منتج ہوئی تھی۔ اس وقت وہ اکیلی E۔ 14 th Stپر رہتی ہے مگر جب وہ پارٹی پر لوگوں کو بلاتی ہے تو اس میں ایکٹر، سیاست دان، ڈاکٹرز، جرنلسٹ، فلم میکرز، پاکستانی وکیل اور پروفیسرز ہوتے ہیں۔ ان کے لئے ڈھیروں ڈھیراعلیٰ قسم کا کھانا تیار کروایا جاتا ہے۔

لاء کلرک کے طور پر اس نے دو ججوں کے دفتر میں کا م کیا۔ مگر 2008 میں جب وہ ڈی پارٹمنٹ آف جسٹس میں پراسی کیوٹر بن گئی تو اس نے بروک لین اور سٹاٹن آئی لینڈ میں گینگ ایکٹوٹی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات دائر کیے۔ جلد ہی اس نے فیلڈ بدل لی اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات دائر کرنے شروع کر دیے۔ اپریل 2013 مین زینب کو ڈپٹی چیف آف نیشنل سکیورٹی کا عہدے پر سرفراز کیا گیا۔ آٹھ سال کے عرصہ یعنی 2009۔ 17 میں تیرہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات دائر کیے اور ہر مقدمہ جیت لیا تھا۔ زینب نے کینیڈین فاروق خلیل محمدعیسیٰ کو عدالت سے سزا دلوائی جس نے 2009 میں عراق میں خودکش حملے میں پانچ امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔

زینب نے اٹارنی جنرل لوریٹا لنچ Loretta Lynchکی فرمائش پر 2016 میں جسٹس ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر دے دی گئی۔ جولائی 2017 میں اس کو سپیشل کونسل را برٹ میولر کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا جو یہ تحقیقات کررہی ہے کہ نومبر 2016 کے امریکی انتخابات میں روس نے کہاں تک مداخلت کی اور صدر ٹرمپ کے ساتھیوں اس میں کیا کردار ادا کیا تھا۔

زینب کا کہنا ہے کہ ان کے لاء سکول جانے کی کئی وجوہات تھیں جن میں ایک یہ تھی مسلمانوں کے بارے میں پائے جانیوالے غلط تاثر کو ختم کیا جائے۔ میں جو کام کرتی ہوں اس کا میرے نسلی بیک گراؤنڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو امیریکن مسلم کمیونٹی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہماری اکثریت اسلام کے پیش کیے جانیوالے مسخ شدہ چہرے سے با لکل مختلف ہے جو دہشت گرد تشدد کرنے میں دلیل کے طور پیش کرتے ہیں۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات اچنبھے کی نہیں کہ مسلم کمیونٹی کے متعدد افراد کا ؤنٹر ٹرر ازم کی کوششوں میں بھرپور طور پر شرکت کر رہے ہیں۔ میں اس معاملے میں منفرد نہیں ہوں۔ بہت سارے امریکن مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کا کلچر اور ان کی کمیونٹی ہے جو دہشت گرد ہائی جیک کر رہے ہیں۔ اس لئے دہشت گردی کرنے والے افراد کر کیفر کردار تک پہچانا ہماری حب الوطنی کی دلیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).