حکومت ’اپوزیشن اور احتساب!


حکومتی وزراء اور اپوزیشن کے درمیان گرم سرد بیانات کا سلسلہ تو خیر تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد تواتر سے جاری و ساری ہے۔ لیکن احتساب کے گھوڑے نے اپنے سموں سے جب پیپلز پارٹی کے قائدین اور ان کے شراکت داروں کو روندھنا شروع کیا تب سے حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کے لئے آصف زرداری متحرک ہو چکے ہیں۔ اور اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایک دن میں ہی آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان دو تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ ملاقاتوں میں جہاں ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا وہیں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کارروائیوں پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا۔ ٖفضل الرحمن نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے گرینڈ اپوزیشن الائنس وقت کی ضرورت ہے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو جمہوریت کے لئے ہاتھ ملانا چاہیے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان جو گلے شکوے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے مولانا پل کا کردار ادا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں کیونکہ جب نواز شریف نیب عدالتوں کے در کی خاک چھان رہے تھے۔ تب آصف زرداری نے فضل الرحمن کو اپنا پلو نہیں تھمایا تھا اس طرح گرینڈ اپوزیشن الائنس کا خواب تعبیر سے قبل ہی چکنا چور ہو گیا اب گیند ن لیگ کے کورٹ میں ہے نواز شریف تو پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ نیب کو اپنے اختیارات سمیت اب ایسے ہی رہنا چاہیے ہم بھگت چکے دوسرے بھی بھگتیں۔ فضل الرحمن کی گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لئے کی جانے والی دوسری کوشش کیا رنگ لاتی ہے اور ملک کے سیاسی محاذ پر اپوزیشن کا ممکنہ ’متوقع یا مجوزہ محاذ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے آنے والے دن طے کر دیں گے۔

بہر حال ملکی سیاست کے منظر نامہ میں بڑی تیزی کے ساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں ن لیگ کے حلقوں میں یہ تاثر بڑا مضبوط ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے جو گرینڈ اپوزیشن الائنس کے سلسلے میں کوشش کی گئی تھی آصف زرداری اس الائنس کا حصہ بن جاتے تو نواز شریف کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اب اگر ممکنہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنے تو اس کا فائدہ براہ راست زرداری کو پہنچے گان لیگ کے اندر پروان چڑھنے والی اس سوچ کی موجودگی میں مولانا کس حد تک کامیابی سمیٹتے ہیں چند روز میں واضح ہو جائے گا۔

منی لانڈرنگ سکینڈل نے پیپلز پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے تحریک انصاف کی تبدیلی نے سندھ کارڈ کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو تبدیل کرنے کی جو میڈیا میں خبریں گردش کر رہی ہیں اس سے بھی پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے اقتدار کی بقا اور احتساب سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ سندھ اب تبدیلی کے ساتھ ساتھ احتساب کے نشانے پر بھی ہے سپریم کورٹ کی جانب سے بلاول اور مراد شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم اور حکومت کی جانب سے آصف زردای کے خلاف دی جانے والی نا اہلی کی درخواست واپس لینے سے پیپلز پارٹی کو ضرور آکسیجن فراہم ہوئی ہے ایک بار پھر سیاسی منظر پر مرد حر کا آوازہ بلند ہوا اور زرداری کو سیاست کا بادشاہ قرار دیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے جو اپنا سو روزہ پلان عوام کو دیا تھا اگر دیکھا جائے تو اس پر خاطر خواہ عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے تجاوزات اور کرپشن کے خلاف حکومت کی جاندار مہم شاندار طریقے سے جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے برملا کہا جا رہا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا اور حکومت عوام کے خون پسینے کی کمائی عوام پر ہی خرچ کرنے کے لئے پر عزم ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اگر ایک دوسرے پر اپنا کیا دھرا ڈالنے کی بجائے اپنی طرز سیاست اور طرز جمہوریت پر ہی غور فرما لیتی تو آج انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ میثاق جمہوریت اگر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی بجائے مفاد عامہ کے لئے کیا جاتا تو عوام کو سڑکون پر احتجاج کرنے کے لئے آوازے نہ دینا پڑتے۔

حیرت تو یہ ہے کہ ایک نو وارد سیاسی جماعت کے ہاتھوں شکست و ریخت کی راکھ سمیٹنے کے باوجود دونوں بڑی سیاسی جماعتیں سبق سیکھنے سے عاری نظر آتی ہیں۔ دونوں جماعتیں اس قابل بھی نہیں رہی کہ صحیح معنوں میں اپوزیشن کا ہی کردار ادا کر سکیں اس سے بڑی حکومت کے سامنے اپوزیشن کی پسپائی کیا ہو گی۔ جب کردار و عمل تضاد کی گرہ سے بندھے ہوں تو پھر مکافات عمل سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپوزیشن کے بیانات عمل سے عاری نظر آتے ہیں ان حالات میں اپوزیشن کا طرز سیاست تحریک انصاف کی حکومت کے لئے انتہائی ساز گار ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت جا رہی ہے یا احتساب کے عمل کو بریک لگ جائے حکومت ’عدلیہ اور ریاستی اداروں کا ایک صحفہ پر متحد ہونا یہ ثابت کر رہا ہے کہ اپوزیشن کے لئے ایسی باتیں کرنا دل کو تسلی دینے کے مترادف ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید نے بیان دیا ہے کہ شہباز شریف این آر او کے لئے کوشش کر رہے ہیں نواز شریف کا پتہ نہیں شیخ رشید نے یہ بھی کہا کہ مجھ سمیت تمام سیاستدانوں کا انجام برا دکھائی دیتا ہے۔ اس بیان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ احتساب کی زد میں آنے والے بہت سے سیاسی ستون مسمار ہو جائیں گے۔

اگر ن لیگ کے بڑے احتساب سے گزر کر سزا بھگت رہے ہیں تو پھر اس سوال کا جواب بھی عوام کے سامنے لایا جائے کہ اومنی گروپ نے تمام جائیدادیں اور کمپنیاں کہاں سے بنائی اربوں روپے کی چینی رہن رکھوائے بغیر اربوں روپے قرض کیسے لیا گیا اومنی گروپ کا سیاستدانوں اور پراپرٹی ٹائیکوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کا خرچ جعلی بنک اکاؤنٹس سے ادا کیا جاتا رہا بلاول ہاوس کے پالتو جانور اور صدقے کے بکروں کے اخراجات تک انہی اکاؤنٹس سے ادا کیے گئے۔

پنجاب اور سندھ کارڈ کھیلنے والوں نے اس ملک پر چالیس سال حکمرانی کی اس عرصہ میں یہ جمہوریت کے پروردہ حکمران عوام کو جمہوری ثمرات سے مستفید نہ کر سکے روٹی ’کپڑا اور مکان‘ بدلتا پاکستان عوام کے لیکھ میں بہار نہ چن سکا عوام آج بھی مہنگائی ’بیروزگاری‘ لوڈشیڈنگ ’دہشت گردی‘ کرپشن و بد عنوانی ’اقربا پروری‘ انصاف کی عدم دستیابی اور تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل کو گرہ سے باندھے ایسی جمہوریت کا قرض چکا رہی ہے جس کے جمہوری پروردہ حکمران بڑی بڑی گاڑیوں کے کانوائے میں سفر کرتے ہیں ’شاہانہ ٹھاٹھ کی زندگی بسر کرتے ہیں‘ بیرون ممالک علاج کرواتے ہیں ’اور سرحد پار جائیدادیں‘ کاروبار رکھتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے غیر جمہوری رویوں اور ان کی کرپشن کا پردہ جب چاک ہو گا تو پھر ان کو چیخنے چلانے کا تو پورا حق حاصل ہے۔ ان حالات میں سوچتا ہوں کہ چالیس سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے حساب دینے سے تو چوک رہے ہیں تو پھر ان حالات میں چھ ماہ کی حکومت سے حساب مانگنا تو ان کا جمہوری حق ہے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).