صبح کے خوش نصیب اور کٹا ہوا ڈبہ


نئے برس کی پہلی رات تھی۔ پچھلے برسوں کے ساتھی کہیں روشنیوں کی جڑاؤ چھت تلے آوازوں کی کھنکھناتی گھنٹیوں میں نئے سال کی چاپ سن رہے تھے۔ درویش اکیلا بیٹھا امروز و فردا کے غموں سے کھیلتا رہا اور پھر رات کے کسی آخری پہر میں آنکھ موند لی۔ اس سے پہلے کہ اس رات کے واقعات کا کچھ بیان ہو، ایک معروضہ یہ کہ رات، نیند اور خواب سے درویش کا زندگی بھر عجیب مچیٹا رہا ہے۔ رات معلوم کی حد سے پرے ایک پھیلی ہوئی خاموش وادی ہے جو مسلسل اپنی طرف بلاتی ہے۔ وہی جو ناصر نے کہا تھا، رین اندھیری ہے اور کنارہ دور….ان گنت راتیں ایسی گزریں کہ اس طنازہ کے اسرار کی جستجو میں دن نکل آیا۔ رات کی آخری گھڑی کو چھونے کی خواہش میں دھندلے کی پہلی کرن ایک تکلیف دہ اور ناقابل مفاہمت سچائی کی طرح آنکھوں پر اترتی ہے۔ ایک امکان بھری تلاش کا اکہرا انت…. رات سے نین ملانے کا روگ پالا جائے تو نیند بیداری اور غفلت کے بیچ ایک نازک فیصلہ بن جاتی ہے۔ متوسط طبقے کی اقدار کی طرح ایک مستقل کشمکش…. یہ پانی خامشی سے بہ رہا ہے، اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں۔

سونے کا فیصلہ کرنا شاید ممکنہ طور پر زندگی سے ہاتھ اٹھانے جیسا ہے۔ مر گئے تو پھر کہاں یہ کارزار زندگی…. اور اس پر مشکل یہ کہ نیند میں دماغ کے نیم بیدار گوشوں پر کیا گزرے گی، اس کا اندازہ کوئی پہلے سے کیسے کر سکتا ہے۔ نیند کا ہر وقفہ زندگی کے وسیع تر تجربے کی مختصر تمثیل ہے۔ جانے کب، کہاں اور کیوں مامور کر دیا جاتا ہے۔ ہر منظر کہیں بیچ سے شروع ہوتا ہے اور بغیر بتائے اگلے منظر میں مدغم ہو جاتا ہے۔ غصب اختیار اور احساس بے اختیاری کی شراکت سے عجیب ہیولے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ درویش کے خوابوں میں فرائیڈ کے علائم اور اشارے شاید ہی کبھی نمودار ہوئے ہوں۔ یہاں تو لامکانی، ہجرت، اضطراب، نامکمل تعمیر، ناگہانی اور لاتعلقی کے اشاروں کی ایک اذیت ناک دیواری تصویر ہے جسے یونگ کی نفسیات کا ایک مطالعہ کہنا چاہیے۔ یہ بتانا کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اگر فرد پر خواب اس تسلسل سے محرومی اور بے بسی کا فرمان بن کر اتریں تو اس سے اجتماعی صورت حال کے متعلق کیا اشارے ملتے ہیں۔ تاہم، درویش ایسی وضاحت کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ…. ان کو ہوتا ہے ناگوار بہت۔

نوروز کی رات میں واپس چلتے ہیں جب رات کی ڈھلتی گھڑیوں میں آنکھ جھپکی اور پھر اچانک جیسے کسی نے اٹھا کے بٹھا دیا۔ بیداری ہی کا عالم تھا مگر ابھی چاروں طرف اندھیرا تھا اور سانس سینے میں سما نہیں رہی تھی۔ دھونکنی سی چل رہی تھی۔ اندازہ ہو گیا کہ سینے کے منطقے میں کہیں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ اس پر بھی دل خانہ خراب کی چلت پھرت دیکھیئے کہ عبداللہ حسین کے ناول ’باگھ‘ کا وہ منظر یاد آیا جب مرکزی کردار اسد کو پہلی مرتبہ سانس میں رکاوٹ پیش آئی تھی۔ ’کچھ ایسا احساس کہ مکئی کا خشک تکا چھاتی میں پھنس گیا ہے اور سانس کو جذب کرتا چلا جا رہا ہے‘۔ گہری سانس لینا تقریباً ناممکن ہو رہا تھا۔ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ اللہ کے فضل سے گاڑی چلانا نہیں جانتا۔ پانی کا گلاس سرہانے رکھ لیا اور کوشش کی کہ ہلنے جلنے سے گریز کیا جائے۔

اگلے تین روز ڈاکٹر خواجہ ایوب ضیا کے پاس جانا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس واسطے کہ تنویر جہاں اسلام آباد میں تھیں اور ان کی غیرموجودگی میں یہ حساب کون رکھتا کہ کون سی دوا کب کھانا ہے۔ ثابت ہوا کہ اس دور میں بندہ بشر کی درویشی بھی کچھ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تصور پردہ سے مشابہت رکھتی ہے۔ ایک عفت مآب کے پردے کی شرائط پوری کرنے کے لئے درجن بھر خادماؤں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بس اس دوران نیم گرم پانی پیتا رہا، سیگرٹ نوشی کی رفتار ساٹھ سے کم کر کے چھ کر دی۔ بارے تنویر لاہور واپس آئیں اور ڈاکٹر خواجہ سے وقت لیا گیا۔

جیل روڈ پر واقع میڈیکل کامپلیکس کی انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ سامنے ٹیلی ویژن پر کوئی ٹاک شو چل رہا تھا جس میں کہیں محترمہ علیمہ خان کا ذکر بھی آ گیا۔ تنویر نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کس جرمانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ رواروی میں مختصر بات کہی کہ وہ جائیداد جو دبئی میں دریافت ہوئی ہے اور جس سے انکم ٹیکس والوں کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس پر سامنے کی نشست پر بیٹھے ایک صاحب چمک کر بیچ میں آن کودے اور کہا کہ علیمہ خان تو کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں رہیں۔ (انہوں نے پبلک آفس کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ صاحب کی وضع قطع جدید تھی، عمر کوئی 30 برس اور چہرہ مبارک پر وہ نشان نما ریش رونق دے رہی تھی جسے ہماری نسل فرنچ کٹ کہتی تھی لیکن اب خلیجی شناخت پا چکی ہے)۔ ایک لمحے کے لئے درویش اپنا ہی اختیار کردہ اصول بھول گیا کہ پاکستان میں کسی اجنبی سے مذہب، سیاست ، معیشت اور معاشرت پر ہرگز بات نہیں ٍکرنی۔ اس ایک لحظے کی لغزش میں جواب دیا کہ مریم نواز بھی کسی پبلک آفس پر فائز نہیں تھیں۔ ترنت جواب آیا کہ ’مریم نواز سیاست کر رہی تھیں، سوشل میڈیا سیل چلا رہی تھیں۔ انہیں مشعل اوباما نے سات کروڑ ڈالر دیے (جی ہاں ڈالر ہی کہا تھا) اور آپ دونوں شاید کوئی این جی او چلاتے ہیں‘۔

اب بات بڑھ چکی تھی۔ درویش نے اس نظریاتی آموختے کے جواب میں ایک ایسا دندناتا ہوا بیان داغ دیا جو ممکنہ طور پر بلوے پر منتج ہو سکتا تھا۔ صاحب مداخل نے سیدھا سیدھا کہ دیا کہ ’میں پرانی باتیں نہیں جانتا۔ مجھے تو 2008 کے بعد کی تاریخ معلوم ہے‘۔ اس دوران میں ڈاکٹر ضیا کے معاون نے ہمیں باریابی کا اشارہ کر دیا۔ تشخیص ہوئی، دوا استعمال ہو رہی ہے اور کافی افاقہ ہے۔ لیکن وہ ایک تنک سا جملہ مسلسل کھٹک رہا ہے کہ ’مجھے تو 2008 کے بعد کی تاریخ یاد ہے‘۔ غالب نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا ، ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔

رواں ہفتے میں ایک سے زیادہ اشارے ایسے ملے جن سے معلوم ہوا کہ ہسپتال کی انتظار گاہ میں ملنے والے صاحب کوئی واماندہ راہرو نہیں تھے، ہمارے عصری سیاسی شعور کی نمائندہ علامت تھے۔ دیکھیے نا، ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما عمران خان نے دورہ ترکی کے دوران تحریک خلافت کی مبادیات سے اپنی لاعلمی آشکار کر دی۔ اس لئے کہ حمید گل کے فوٹو کاپی نوٹس میں یہی لکھا تھا۔ کچھ وزرا کو دعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برس میں جو کرپشن ہوئی، ماضی میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ صاحبان اگر ایسا ہی ہے تو 1990 سے 1999 تک چار حکومتیں گویا جرم ضعیفی کا شکار ہوئیں۔ کچھ احباب کو ان دنوں ون یونٹ جیسی ناشدنی اصطلاح یاد آ رہی ہے۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ ون یونٹ وہ سمندری چٹان تھی جس سے ٹکرا کر متحدہ پاکستان کی کشتی دولخت ہوئی۔ جب وہ سانحہ برپا ہوا تو انتظار حسین نے اس قومی ناکامی کی کرید میں پے در پے افسانے لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ ’کچھوے‘ میں شامل ہوئے اور باقی ’شہر افسوس‘میں۔ عرض صرف یہ ہے کہ کچھوے کی چال چلنے والے آج بھی ’کٹے ہوئے ڈبے‘کے مسافر ہیں لیکن خود کو ’صبح کے خوش نصیب‘ سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).