امریکہ میں طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن کا ریکارڈ قائم، آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین بےتنخواہ


امریکہ

یہ جزوی شٹ ڈاؤن سنیچر کو اپنے 22ویں دن میں پہنچ کر صدر بل کلنٹن کے دور صدارت میں سنہ 1995-96 کے 21 دن کے ریکارڈ شٹ ڈاؤن سے آگے نکل گيا ہے

امریکی حکومت کا جزوی شٹ ڈاؤن اب تک کا سب سے طویل شٹ ڈاؤن ہو گیا ہے اور مستقبل قریب میں اس سیاسی تعطل کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔

دوسری طرف اس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ وفاقی ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی ہے اور وہ اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لیے اشتہار دے رہے ہیں جبکہ ایک اہم ہوائی اڈا اپنا ایک ٹرمینل پوری طرح بند کرنے پر غور کر رہا ہے۔

یہ جزوی شٹ ڈاؤن سنیچر کو اپنے 22ویں دن میں پہنچ کر صدر بل کلنٹن کے دور صدارت میں سنہ 1995-96 کے 21 دن کے ریکارڈ شٹ ڈاؤن سے آگے نکل گيا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بجٹ کی منظوری سے اس وقت تک انکار کیا ہے جب تکہ کہ اس میں امریکہ کے ساتھ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے رقم شامل نہیں کیا جاتا۔

جبکہ ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان نے ان کے پانچ ارب 70 کروڑ ڈالر کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

اس سیاسی تعطل کے نتیجے میں حکومت کے تقریباً ایک تہائی شعبے کا کام کاج ٹھپ ہے اور تقریباً آٹھ لاکھ ملازمین کو ماہانہ تنخواہ نہیں ملی ہے۔

جمعے کو جیل کے محافظ، ہوائی اڈے کے سٹاف اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ساتھ لاکھوں دوسرے ملازمین کو رواں سال کی پہلی تنخواہ وقت پر نہیں مل سکی۔

دریں اثنا صدر ٹرمپ نے قومی ایمرجنسی کے اعلان کے اندازوں کو مدھم کر دیا ہے کہ وہ دیوار کی تعمیر کے لیے ضروری رقم کے حصول کے لیے کانگریس کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔

امریکہ کا شعبہ زراعت اس شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوا ہے

ورجینیا میں ان جیسے کسانوں کا کہنا ہے کہ انھیں دیوار کی ضرورت نہیں انھیں اپنی فصل کو بونے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے

انھوں نے ایمرجنسی کے اعلان کو ‘اس سے نکلنے کا آسان راستہ’ قرار دیتے ہوئے کہا وہ یہ چاہیں گے کہ کانگریس اس مسئلے کو حل کرے۔

تاہم انھوں نے مزید کہا: ‘اگر وہ نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ تو میں قومی ایمرجنسی کا اعلان کر دوں گا۔ مجھے مکمل اختیار حاصل ہے۔’

نامہ نگاروں کا کہنا ہے اگر صدر ٹرمپ ایسا کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ڈیموکریٹس اس کے خلاف فوری قانونی چارہ جوئی کا سہارا لیں گے۔

ملازموں کا ردعمل؟

جمعے کو بعض ملازموں نے جنھیں نئے سال کی اپنی پہلی تنخواہ نہیں ملی انھوں نے اپنا خالی اور سادہ ‘پے سلپ’ سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا میں ایئروسپیس انجینیئر آسکر موریلو نے ٹوئٹر پر صفر ڈالر کا اپنا چیک پوسٹ کیا اور انھوں نے لکھا کہ انھیں لازمی واجب الادا رقم کی وجہ سے در حقیقت پیسوں کا نقصان ہوا ہے۔

https://twitter.com/catheifner/status/1083405211820019712

ایک دوسرے ٹوئٹر صارف کیٹ ہیفنر نے تنخواہ کی ایک سلپ پوسٹ کی جس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ان کے بھائی کی تنخواہ کی سلپ ہے جس میں یہ دکھایا گيا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر کے طور پر کام کرنے کے لیے انھیں ایک سینٹ کی ادائيگی کی گئی ہے۔

دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک فوڈ بینک نے ہفتے کو تنخواہ نہ پانے والے ملازمین کے لیے پانچ ‘پوپ-اپ مارکیٹس’ کے انتظام کی بات کہی ہے۔

کیپیٹل ایریا فوڈ بینک کی سربراہ رادھا موتھیا نے کہا ہے کہ درجنوں رضا کار تنخواہ کے متاثرین کے لیے کھانا پیک کرنے کا کام کررہے ہیں۔

دریں اثنا کلاسیفائڈ اشتہار کی ویب سائٹ کریگ لسٹ پر حکومت کے ملازمین کی جانب سے اپنے سامان کو فروخت کرنے کے لیے سیلاب سا آ گيا ہے۔

دیوار

میکسیکو کی سرحد پر دیوار یا سٹیل کی باڑھ کی تعمیر صدر ٹرمپ کے اہم وعدوں میں شامل ہے

‘حکومت کے شٹ ڈاؤن سپیشل’ کے طور پر اس فروخت میں بستر سے لے کر پرانے کھلونے تک شامل ہیں۔

بچوں کی راکنگ کرسی کی فروخت کے ایک اشتہار میں لکھا ہے کہ ‘یہ وال مارٹ پر 88۔93 ڈالرمیں دستیاب ہے جبکہ یہاں صرف دس ڈالر میں۔’ اس کے ساتھ ہی لکھا ہے کہ ‘ہمیں اپنے بل کی ادائيگی کرنی ہے۔’

جن آٹھ لاکھ افراد کو رواں ماہ تنخواہ نہیں ملی ہے ان میں سے ساڑھے تین لاکھ کو عارضی طور پر چھٹی دے دی گئی ہے جبکہ باقی اپنا کام کر رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد نے مالی عدم استحکام کے پیش نظر بے روزگاری کا وظیفہ حاصل کرنے کے لیے عرضی داخل کرنی شروع کر دی ہے۔

میامی انٹرنیشنل ایئرپورٹ شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں سکیورٹی ایجنٹس کی کمی کے سبب رواں اختتامِ ہفتہ اپنا ایک پورا ٹرمینل بند کر رہا ہے۔

یہ ایجنٹس ‘لازمی’ وفاقی ملازم ہیں اور شٹ ڈاؤن کے سبب اگر تنخواہ نہیں بھی ملتی ہے تب بھی ان سے کام کرنے کی امید کی جاتی ہے۔

‘میامی ہیرلڈ’ اخبار کے مطابق اس کے بجائے حالات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بہت سے ایجنٹس بیماری کا عذر پیش کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ

صدر ٹرمپ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ نہیں دے رہے ہیں

سیاسی صورت حال کیا ہے؟

ایوان نمائندگان اور سینیٹ نے جمعے کو بڑے ووٹوں سے بل کو منظوری دے دی ہے تاکہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے پر ملازمین کو بقایہ رقم بھی مل سکے اور صدر سے امید کی جار رہی ہے کہ وہ اس بل پر دستخط کر دیں گے۔

لیکن یہ سخت حالات کا شکار وفاقی ملازمین کے لیے بہت چھوٹی سی راحت ہو گی کیونکہ دور دور تک اس سیاسی تعطل کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔

ریاست اور مقامی رہنماؤں کے ساتھ سرحد کی حفاظت سے متعلق ایک گول میز مذاکرے میں صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹس رہنماؤں سے ایک بار پھر دیوار یا سٹیل کے جنگلے کی تعمیر کے لیے فنڈز منظور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن امریکہ کے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس رہنماؤں نے کہا ہے کہ گیند اب ٹرمپ کے کورٹ میں ہے۔

سپیکر نینسی پیلوسی نے نمائندوں کو بتایا: ‘جب صدر کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ہم اس کے مطابق انھیں جواب دیں گے۔’

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کے مشیر اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے صدر کو قومی ایمرجنسی کے اعلان سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

امریکی میڈیا میں یہ خبریں ہیں کہ کانگریس نے گذشتہ سال قدرتی آفات کی ریلیف کے مد میں جو 9۔13 ارب ڈالر مختص کیے تھے اسے پیورٹو ریکو، ٹیکسس اور کیلیفورنیا کی جانب منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ دیوار کے لیے رقم ادا کی جا سکے۔

لیکن صدر کے قریبی سمجھے جانے والے رپبلکن کانگریس رہنما مارک میڈوز کا کہنا ہے کہ اس آپشن پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp