ماریہ محمود: دبنگ لیڈی پولیس افسر یا نفسیاتی مریضہ؟


پاکستان کا ضلع پاکپتن اکثر خبروں میں رہتا ہے، گزشتہ دنوں پاکپتن کی تحصیل عارفوالہ میں ڈی پی او ماریہ محمود نے کھلی کچہری لگائی، جس میں ایک معمولی نوعیت کا واقعہ پیش آیا، ہوا یوں کہ انجمن تاجران کے سربراہ صوفی عبدالرشید نے از شفقت ماریہ محمود کے سر پر دست شفقت رکھنا چاہا، لیکن ماریہ محمود کو 85 سالہ بزرگ کا یہ عمل ناگوار گزرا، سو ماریہ محمود نے سب کے سامنے بزرگ کو کھری کھری سنادیں اور فرمایاکہ میں نے آپ کی عمر کی وجہ سے آپ کے ساتھ رعایت برتی ہے۔ جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے اس میں ماریہ محمود کو صوفی عبدالرشید کی سرزنش کرتے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے واقعے کے مختصر حالات لوگوں کے سامنے آگئے لیکن میں آپ کو اس واقعہ کی کچھ تفصیل بتانا چاہتا ہوں کیونکہ میرا تعلق بھی تحصیل عارفوالہ سے ہے، نہ تو میں آج تک صوفی عبدالرشید سے ملا ہوں نہ ہی میں نے اس سے قبل ان کا نام سنا تھا جب ایک اعلی پولیس افسر کی جانب سے بزرگ شہری کے ساتھ اس طرح کا نامناسب رویہ اختیار کیا گیا تو میں نے اپنے طور پر اس معاملہ کے حقائق جانے کی کوشش کی، پولیس اہلکاروں، مقامی صحافیوں اور اہل علاقہ سے جو میں معلوم کرنے میں کامیاب ہواہوں وہ پیش ہے۔

ڈی پی او ماریہ محمود نے لوگوں کے سامنے بظاہر صوفی عبدالرشیدکو ڈانٹ کر معاملہ ختم کردیا تھا لیکن ماریہ محمود نے بزرگ کے اس عمل کی رنجش اپنے دل میں رکھی شام ہوتے ہی صوفی عبدالرشید کو سٹی تھانہ سے کال آتی ہے کہ آپ سٹی تھانہ آجائیں آپ سے کسی معاملہ پر اہم مشاورت کرنی ہے، صوفی عبدالرشید اپنے ڈرائیور کے ساتھ سٹی تھانہ عارفوالہ پہنچتے ہیں تو پولیس کی جانب سے انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ ڈرائیور کو واپس بھیج دیں کیونکہ آپ سے تفصیلی بات چیت ہوگی، جب ڈرائیور واپس چلا جاتا ہے تو صوفی عبدالرشید کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے۔ جسے مقامی لوگ جھوٹی ایف آئی آر کا نام دے رہے ہیں۔

میں نے عارفوالہ کے مقامی پولیس حکام سے پوچھاکہ ایف آئی آر میں کیا دفعات لگائی گئی ہیں تو انہوں نے ایف آئی آر کی کاپی مجھے دیتے ہوئے کہا اس میں ایم پی اے سولہ ایک سو انچاس ایک سو اڑتالیس سمیت دیگر دفعات لگائی گئی ہیں جو عام طور پر روڈ کو غیر قانونی بند کرنے پر لگائی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ روڈ اس وقت تک بلاک نہیں ہوئے تھے بلکہ جب انجمن تاجران کو معلوم ہوا کہ ان کے چیئرمین کو بلاوجہ گرفتار کر لیا گیا ہے تو انہوں نے ردعمل کے طور پر روڈ بلاک کر دیا تھا۔

صوفی عبدالرشید کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں عارفوالہ شہر میں نہیں رکھا گیا بلکہ اس خطرناک مجرم کر دوسرے شہر قبولہ شریف منتقل کردیا گیا، جب میڈیا پر خبریں چلنا شروع ہوئیں، آر پی او اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کا نوٹس لیا تو مجبوراً پولیس نے انہیں رہا کر دیا۔ صوفی عبدالرشید رہا ہو چکے ہیں، آرپی او اور وزراعلی پنجاب کی جانب سے واقعے کی انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے، چند دن کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے، سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تاریخ کا انوکھا ترین واقعہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن میرے کچھ سوالات پولیس کے اعلی افسران سے ہیں۔

کیا اعلیٰ پولیس افسران کو اس قدر پرسنل ہونا چاہیے؟
کیا لاء اینڈ آرڈر کے اداروں سے وابستہ افسران کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کر یں۔

اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی ایک حیثیت عوامی بھی ہوتی ہے جس میں وہ عوام کا اعتماد حاصل کر کے عوام میں گل مل جاتے ہیں کیا ماریہ محمود کی شخصیت میں یہ پہلو کسی بھی اعتبار سے دیکھنے میں آتا ہے؟

اگر اعلی عہدیداران عوام کے ساتھ اس طرح کا نامناسب رویہ رکھیں گے تو عوام داد رسی کے لئے کس کے پاس جائیں گے؟
جج کے لئے لازم ہے کہ وہ غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے لیکن جو فیصلے اعلی افسر کرتے ہیں کیا انہیں اجازت دی جاسکتی ہے؟
ڈی پی او بظاہر ضلع کا مالک و مختار ہوتا ہے، کیا ماریہ محمود ذہنی اعتبار سے اس قدر قابلِ بھروسا ہے کہ پورا ضلع اس کے حوالے کر دیا جائے؟

اسی بارے میں: ڈی پی او ماریہ محمود کا ماتھا: دوسرا رخ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).