کس بیدردی سے اخبارات اردو کو مسخ کر رہے ہیں؟


اردو ادب اور صحافت کا اوائل ہی سے ایک دوسرے کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ رہا ہے اور بلاشبہ اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اردو اخبارات کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اسی زمانہ میں جب کہ اردو زبان کم سنی کے عہد سے نکل کر بلوغت کی شعوری منزلوں کو چھو رہی تھی اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا۔ یہ انیسویں صدی کا اوائلی دور تھا۔ کلکتہ سے مارچ سن اٹھارہ سو بائیس میں شائع ہونے والا جام جہاں نما بر صغیر کا اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار تھا۔

اس کے بعد اٹھارہ سو چھتیس کے آس پاس محمد باقر صاحب نے دلی سے اردو اخبار نکالا اور اکبر آباد سے منشی سدا سکھ لال کی سرپرستی میں اخبار نورالبصار نکلا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بر صغیر میں اردو نثر کی ترقی کے لیے شعوری اقدامات کیے جا رہے تھے اور اردو کتابوں کے لیے چھاپے خانے قائم ہو رہے تھے۔ اردو طباعت کے شعبہ میں یہ انقلاب اردو صحافت کی ترقی کا نقیب ثابت ہوا اوریہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت نے اپنے اوائل ہی سے اردو ادب اور اردو ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب صحافت ہی کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوا اور پروان چڑھا۔

اردو شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ہوا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں ’نوابوں کے ڈیروں اور مشاعروں کی پرانی روایت کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالصتاً صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔

مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد، سرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق، مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال او ر البلاغ، بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق، کانپور کے زمانہ، حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلی اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ نثر کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے وہ اردو ادب کی تاریخ کے لیے قابل فخر ہے۔

سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کی ایک کہکشاں سجائی تھی جس میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، ذکاء اللہ خان، محسن الملک اور چراخ علی نمایاں ہیں۔

سر سید نے مولانا حالی کو مسدس لکھنے کی ترغیب دی تھی اور اس کو مقبول عام کرنے کے لیے انہوں نے اپنے رسالہ تہذیب الاخلاق میں یہ مسدس شایع کی اور ادب کا یہ شہ پارہ عوام تک پہنچایا۔ پریم چند کا پہلا ناول ’اسرار معابد‘ بنارس کے آوازہ اخلاق میں قسط وار شائع ہوا تھا اور اسی طرح ان کے دوسرے ناول اور افسانے کانپور کے رسالہ زمانہ میں شائع ہوئے۔

اردو ادب میں نثر کا وہ ابتدائی دور جب کہ رومانیت اپنے عروج پر تھی اور ادب لطیف کی اصطلاح عام تھی اس کو خان بہادر ناصر علی کے اخبار، صلاح عام، دلی اور نیاز فتح پوری کے نگار نے بڑھاوا دیا۔ یہ زمانہ انیس سو بیس اور اکیس کا تھا۔ اسی زمانہ میں سجاد حیدر یلدرم، نواب نصیر حسین خیال اور مجنوں گورکھپوری کے مجلہ ایوان نے جو انہوں نے انیس سو تیس میں گورکھپور سے جاری کیا تھا، اردو ناول اور افسانہ نگاری کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

اردو میں طنزومزاح کو جو فروغ حاصل ہوا وہ خاص طور پر اردو صحافت کی دین ہے۔ اس صنف کا آغاز سر شار اور سجاد حسین سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مزاحیہ مضامین کی ابتدا اودھ پنچ سے کی۔ خود سجاد حسین اس زمانہ میں اودھ پنچ کے مدیر تھے۔ مرزا مچھو بیگ ستم ظریف ’پنڈت ہجر‘ منشی احمد علی کسمنڈوی اور جوالا پرشاد برق اسی زمانہ کے نامور مزاح نگار تھے۔ بعد کے مزاح نگار رشید احمد صدیقی ’ملا رموزی‘ پطرس ’فرحت اللہ بیگ‘ عظیم بیگ چغتائی اور کنہیا لال کپور کتابی مزاح نگار ہیں لیکن بعد کی مزاح نگار نسل میں چراخ حسن حسرت ’مجید لاہوری‘ حاجی لق لق ’طفیل احمد جمالی‘ ابراہیم جلیس ’ابن انشاء نصر اللہ خان‘ فکر تونسوی ’شوکت تھانوی، مشفق خواجہ اور عطا الحق قاسمی‘ ان سبھوں نے اردو صحافت کے ذریعہ اپنی تخلیقات کو جلا دی اور عوام تک پہنچایا۔ اس نسل کے مزاح نگاروں میں ایک بڑا نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے لیکن وہ براہ راست حساب کتاب سے کتاب تک آئے تھے۔

یہ اردو صحافت کی خوش قسمتی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر ’مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ظفر علی خان ’حیات اللہ انصاری‘ غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیں اور آزادی کے بعد فیض احمد فیض ’احمد ندیم قاسمی اور چراخ حسن حسرت اردو اخبارات کے مدیر رہے لیکن اسے بدقسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔ اب یہ عہدہ محض اخبارات کے مالکوں کے بیٹوں اور بھتیجوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقی ایڈیٹر مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔

میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے جب سن پچاس کی دہائی کے آغاز میں اپنے صحافتی سفر کی شروعات روزنامہ امروز سے کی تو اس وقت فیض صاحب ’چراغ حسن حسرت‘ احمد ندیم قاسمی ’سید سبط حسن ایسے جید صحافی اس ادارہ سے وابستہ تھے اور واقعی یہ اخبار ہر اعتبار سے مثالی اخبار تھا آج کل کے اخبارات سے بالکل مختلف۔ ان ممتاز ادیبوں کی چھاپ اخبار پر نمایاں تھی جنہوں نے اردو زبان پر اپنی دست رس اور مہارت کے ذریعہ اخبار کو معیاری اور شستہ زبان سے مزین کیا۔ پھر اس زمانہ میں اخبارات میں کالم نگاروں کا اتنا مجمع نہیں تھا جتنا آج کل ہے۔ آج کل تو کالم نگاروں کی فوج ظفر موج ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چاروں اور سے کالموں کا پتھراؤ ہو رہا ہے۔

سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کمپیوٹر اور ٹیکنولوجی کی زبردست ترقی کے باوجود اخبارات کے ادارتی معیار اور خاص طور پر زبان میں ایسی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اردو اخبارات جنہوں نے اب تک اردو ادب اور اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اب یہی ’اردو زبان کی ہئیت بگاڑنے اور اسے مسخ کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں۔ مایوسی کے عالم میں بہت سے سنجیدہ اور اہل فکر لوگ یہ کہتے ہیں کہ صاحب پاکستان کے پورے معاشرے میں پچھلے چالیس پینتالیس برس میں معیار کی پستی کی شکایت ہے اور صحافت بھی اس سے مبرا نہیں کیونکہ یہ بھی تو آخر معاشرہ کا ایک حصہ ہے۔ میں اس استدلال سے متفق نہیں۔ میرے خیال میں صحافت‘ حیات انسانی کی منجھدار کی سمت متعین کرتی ہے اور اس کے مختلف پہلوں کی نشاندہی اور ترجمانی کرتی ہے اس لیے اس کے فرایض اور ذمہ داریاں معاشرہ کے دوسرے اداروں سے قطعی مختلف ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani