نئے لطیفے آنا بند ہو گئے کیا؟


خاور اچھا بھلا لکھ رہا تھا۔ دس پندرہ بلاگز بڑے زبردست اس نے لکھے، لوگوں کو پسند بھی آئے۔ وہ بڑے مزے سے کوئی بھی قصہ سنا سکتا ہے۔ اس کے پاس واقعے میں ہنسی مذاق پیدا کرنے والی حس بہت خاص ہے ۔ وہ فلائٹ سٹیورڈ ہے اور اپنے فضائی سفروں کی کہانیاں لکھتا رہتا تھا۔ پھر اس نے سارا خلائی بزنس لپیٹ کے ایک طرف رکھ دیا۔ مطلب لکھنا شکھنا چھوڑ چھاڑ کر سکون سے نوکری پوری کرنے لگا۔ وہ میرا چھوٹا بھائی بھی ہے ۔ آج قسمت سے ہم دونوں صبح ناشتے پہ اکٹھے تھے تو میں نے پوچھا کہ یار تو نے بالکل ہی لکھنا بند کر دیا، کیا چکر ہے ؟ کہنے لگا : بھیا، چکر یہ ہے کہ لکھنے کی فلاسفی بدل گئی ہے ۔ کم از کم میرے نزدیک بدل گئی ہے ۔ پوچھا: کیسے؟ کہنے لگا کہ یار اتنا لمبا چوڑا لکھنے کی بجائے وہ سب کچھ بندہ تصویروں سے دکھا سکتا ہے ۔ میں جب لکھتا تھا تو بیچ میں مزاحیہ قصے بھی ہوتے تھے ، اب میں دو تین تصویریں جوڑتا ہوں، ان پہ کوئی ایک آدھا کمنٹ ڈالتا ہوں، وہ بہترین قسم کا میم MEME بن جاتا ہے ، اسے دوستوں کو بھیجتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ کری ایٹیوٹی کی ٹھرک بھی پوری ہو جاتی ہے اور سکون سے بچے ہوئے ٹائم میں فلمیں یا نیٹ فلکس دیکھتا ہوں۔

میم اصل میں وہ تصویر ہوتی ہے جو اکثر واٹس ایپ پہ آپ کے پاس آتی ہے ، جس پہ کسی بھی اداکار یا عام آدمی کا چہرہ بنا ہوتا ہے اور نیچے کوئی بھی کمنٹ ہوتا ہے۔ جیسے ناصر خان جان ایک ٹرانس جینڈر ہیں، نوجوان ان کی مزاحیہ اور بعض اوقات تھوڑی فری سٹائل ویڈیوز ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں تو اگر آپ کو کہیں سے ناصر خان جان کی ایک تصویر آئے اور اس پہ ہیپی نیو ائیر لکھا ہو تو آپ مسکرا دیں گے۔ اگر آپ انہیں جانتے نہیں یا پسند نہیں کرتے تو لاحول پڑھ کے آگے بڑھ جائیں گے ۔ بس وہ جو تصویر ہے وہ میم کہلاتی ہے ۔

ویسے بھی ہر چیز کی ایک عمر ہے ، میرا ذاتی خیال ہے کہ اب نئے لطیفے پیدا ہونے بند ہو چکے ہیں۔ اس جملے کو بے شک حالات حاضرہ والے کپڑے پہنائے جا سکتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے ۔ جیسے وہ ایک سمارٹ سا لطیفہ تھا کہ ایک بچہ دوسرے بچے سے کہتا ہے ، پتہ ہے میرے ابو اتنے لمبے ہیں کہ وہ چھت والے پنکھے کو ہاتھ لگا لیتے ہیں۔ دوسرا بچہ کہتا ہے کہ یار ابو تو میرے بھی لمبے ہیں لیکن وہ اتنی بڑ نہیں مارتے ۔ تو اس طرح کے لطیفے اب نئے بہت کم آتے ہیں۔

پہلے سب رنگ، جاسوسی یا سسپنس ڈائجسٹ کے فلرز بڑے مزے کے ہوتے تھے۔ فلر کو یوں سمجھیے جیسے وہ ایک چوکور سا ڈبہ جو صفحے کے ایک کونے میں بنا ہوتا تھا، جس میں یا کوئی لطیفہ لگتا تھا اور یا کوئی کارٹون ہوتا تھا۔ یا آج کل جیسے ادھر کالموں والے صفحے پہ اگر کسی کالم کے لفظ پورے نہ ہو رہے ہوں تو ایک چوکور ڈبہ بنا کے اس میں چند الفاظ لکھ دئیے جاتے ہیں تاکہ فونٹس کا اور چوکھٹے کا بیلنس قائم رہے ۔ تو وہ جو فلرز تھے وہ بڑے جینوئن قسم کے ہوتے تھے۔ ان پر باقاعدہ ہنسی آیا کرتی تھی، اب کسی بات پر نہیں آتی۔ زیادہ سے زیادہ بندہ حالات حاضرہ پہ ہنس سکتا ہے ۔

اگر غور کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرنٹ میڈیا کے زوال کے ساتھ ساتھ لطیفے کا زوال بھی ہوا ہے ۔ پہلے رسالے اور اخبار اچھی خاصی تعداد میں چھپتے تھے اور ان میں لطیفے تک چھپوانے کے لیے کچھ نہ کچھ معیار چاہئے ہوتا تھا۔ اب نہ وہ رسالوں کی مقبولیت رہ گئی ہے اور نہ کوئی سریلا قسم کا لطیفہ پیدا ہو رہا ہے ۔ مجھے یاد ہے‘ شروع سے میں اس بات کو بڑی کامیابی سمجھتا تھا کہ اگر ابا کے سامنے کوئی لطیفہ سنایا جائے اور وہ ہنس دیں۔ ایسا نہیں کہ وہ بہت خراب موڈ والے آدمی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کے باقاعدہ لطیفوں والی کتابیں تک پڑھ لی تھیں، تو ان کے لیے کوئی لطیفہ نیا نہیں ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے پندرہ سال پہلے تک کے بہت سے پنجابی سٹیج شو بھی کمپیوٹر پہ دیکھ لیے ، جب واقعی جگت جگت ہوتی تھی، تو اب ان کے لیے جگت بھی کوئی نئی نہیں ہوتی تھی۔ میرا خیال ہے تقریباً یہی مسئلہ اب میرا اور موجودہ نسل کا ہو چکا ہے ۔

سوچا جائے تو دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو اب لطیفہ الگ سے چھپا ہوا کہیں نہیں ملتا‘ اس وجہ سے اس کا معیار ڈاؤن ہوا ہے ۔ دوسری وجہ وہی کہ لطیفے یا بعض اوقات لمبی تحریروں کی جگہ ایک سادہ سا میم لے چکا ہے ۔ جیسے اگر سیاست کی بات ہو تو وہ تصویر جس میں عمران خان صاحب کے ساتھ نعیم الحق دیوار پہ ہاتھ رکھ کے کھڑے ہیں، اس پہ کیا کیا میم نہیں بنے ۔ آصف علی زرداری کی مسکراہٹ والی تصویروں کے ساتھ بارہا شدید قیامت خیز میمز بنائے گئے۔ شیخ رشید کی تصاویر پہ ”دیکھیں جی ی ی ی بات یہ ہے کہ‘‘ لکھ کر میم بنے ، لاہور میں جب بھی بارش ہوئی اور پانی کھڑا ہوا تو شہباز شریف کی لمبے بوٹوں والی تصویر پہ ان گنت میم بنے ، تو نیا ٹرینڈ اب یہی ہے ۔

پہلے اخباروں میں یا رسالوں میں کارٹون بھی ایک سے ایک اعلیٰ مل جاتا تھا۔ پولیٹیکل کمنٹری ہو یا کرنٹ افیئرز، چند لکیروں میں جواُن میں ایک آگ بھر دیتے تھے ، اب وہ بھی کچھ ایسا جاندار کام نہیں رہا۔ اسے بھی میمز کھا چکے ہیں۔ اب آپ، میں یا کوئی بھی گاما ماجھا اٹھے گا، ایک تصویر لے گا، موبائل میں اسے ایڈٹ کر کے اس پہ کچھ لکھے گا اور اسے آگے سوشل میڈیا پہ ڈال دے گا۔ لکھے ہوئے میں دم ہوا تو تصویر شیئر در شیئر ہوتے ہوئے ہٹ ہو جائے گی نہیں تو پٹ پٹا کے آپ کی اپنی وال پہ پڑی رہے گی۔ مطلب یوں سمجھ لیں کہ جیسے کری ایٹیوٹی ختم نہیں ہوئی بکھر گئی ہے ۔ اب اس کی تلاش میں نکلنا پڑتا ہے ۔ پہلے کنفرم ہوتا تھا کہ فیکا ہیں، میکسم ہیں یا ننھا تھے تو جو بھی کارٹون ہو گا، ایک کلاس ہو گی۔

ابھی 2018ء کے الیکشن سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے ایک میم آئی تھی۔ سابق صدر ممنون حسین کھڑے ہیں، ساتھ عمران خان کھڑے ہیں، خاکی سا بیک گرائونڈ ہے اور عمران خان وزیراعظم کا حلف لے رہے ہیں۔ وہ بھی مختلف عنوانات کے ساتھ سوشل میڈیا پہ بہت چلی۔ فقیر نے اس کے اوپر وہ مشہور مصرع لکھا، ”لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب‘‘ اور شیئر کر دیا، لیکن افسوس کہ جواب سچا تھا۔ یار وہ الہامی ٹائپ کی میم یا کارٹون تھا۔ جس دن عمران خان صاحب وزیراعظم بنے اور حلف اٹھایا، بالکل وہی منظر تھا۔ تو بعض اوقات یہ بھی ہو جاتا ہے۔

ایک اور لطیفوں کی سریلی قسم وہ ہوتی ہے جو مرد یا خواتین صرف اپنے قریبی دوستوں کو بھیجتے ہیں۔ اس میں چنگی بھلی نئی ورائٹی آتی رہتی ہے ۔ کافی مرتبہ ٹھیک ٹھاک ہنسی بھی آتی ہے لیکن وہ سینہ گزٹ کا معاملہ ہے ، آ گئے تو دو تین اچھے لطیفے ایک ساتھ آ گئے ، نہ آنے ہوئے تو دو دو مہینے انہی لطیفوں پہ گزارہ کرنا پڑتا ہے جن کی بھنویں بھی چٹی ترین ہو گئی ہوتی ہیں۔ بات خاور سے شروع ہوئی تھی کہ جو میمز کے چکر میں لکھنا چھوڑ چکا ہے، دریافت ہوا کہ اچھے لطیفے آنا بند ہو چکے ہیں۔ کجا رَوَم، چہ کنم! ابھی سنجیدگی سے ایک درخواست ہے ۔ کوئی نئے لطیفے بنائیں یار، لطیفوں کا سٹاک ختم گیا ہے ۔ ٹی وی یا اخبار میں سیاست دانوں کا مذاق اڑانا یا کسی کی بے سری نقل کرنا، لطیفہ یہ نہیں ہوتا۔ لطیفہ تو ایسی معصوم اور ہلکی سی بے ضرر کہانی ہوتی ہے جو بس ہنسا کے آگے کہیں چلی جاتی ہے ، کسی اور کا دل بہلانے ۔

یہ سب کچھ لکھ کے فقیر انتظار میں تھا کہ جس لطیفے پہ ہنسی آئے گی تو ادھر کالم کلوز کرے گا۔ بیٹی نے ابھی سنا دیا۔ ایک آدمی پہاڑ کی چوٹی پہ لگے درخت کی لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ ادھر سے قریب کے گاؤں کا ایک بندہ گزرا۔ اس نے پوچھا کہ بھائی تم یہ لکڑیاں کیوں کاٹ رہے ہو؟ وہ بندہ چپ کر کے شاخیں کاٹتا رہا، اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گاؤں والے نے کچھ دیر بعد دوبارہ سوال کیا۔ اس بندے نے مڑ کے بھی نہیں دیکھا، دھڑا دھڑ کلہاڑی چلاتا رہا۔ گاؤں والا بندہ بھی ڈھیٹ تھا۔ وہ ادھر ہی کھڑا ہو گیا۔ چوتھی بار اس نے پوچھا تو آخر درخت سے لکڑیاں کاٹنے والے نے جواب دے ہی دیا۔ اس نے کہا، ”بھائی آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟‘‘

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain