کیا اگلے 10 برس میں لوگ گاڑیاں خریدنا بند کر دیں گے؟


ایک گاڑی پانی میں ڈوب رہی ہے

برطانیہ میں 2018 میں 2017 کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی دیکھی گئی تھی

چند ماہ قبل میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ شاید ہم میں سے جنھوں نے نئی گاڑی خریدی ہے وہ شاید ہماری آخری ذاتی گاڑی ہو۔

میرا ایسے کہنے کی بنیاد یہ تجزیہ تھا کہ الیکٹرک اور خودکار گاڑیوں اور اووبر کی طرز کی ٹیکسی سروسز سمیت خودکار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی گاڑیوں کی مارکیٹ کو بدل کے رکھ سکتی ہے۔

یہ ’روبو ٹیکسیاں‘ اتنی سستی ہوں گی کہ ہمیں اپنی خود کی گاڑی خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ ایسا کتنے عرصے میں ہو جائے گا، شاید ایک دہائی سے کم عرصے میں۔

یہ بھی پڑھیے

کیسی ہو گی خودکار گاڑیوں والی دنیا؟

اور اب خودکار ہوائی ٹیکسی بھی آ گئی

خودکار گاڑی، اوبر نے ٹسیٹ روک دیا

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ہمارا طرز زندگی بالکل بدل جائے گا۔ ہم نے اس بارے میں چند ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننا چاہا کہ آخر ذاتی گاڑیوں کا دور کیا واقعی ختم ہو جائے گا؟

کیا اتنی الیکٹرک گاڑیاں بنانا ممکن بھی ہوگا؟

مثال کے طور پر کیا دنیا میں اتنا لیتھیئم اور کوبالٹ ہو گا کہ ان گاڑیوں کے لیے اتنی بیٹریاں بنائی جا سکیں۔

برطانیہ کے علاقے ملٹن کینز میں ایک خاتون اپنی الیکٹرک گاڑی کو چارج کر رہی ہیں

Andrew Aitchison/Getty Images
40 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں

مائیکل لیبریخ لندن میں ماحول دوست توانائی اور نقل و حمل پر کام کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں چیزوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کان کنی کی صنعت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اسے کھود کر نکال سکیں اور کیوں کہ اس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی کان کنی کے وسائل پیدا کرنے پر ایک بڑا سرمایہ لگ چکا ہے۔

مائیکل لبریخ اعداد و شمار سے بتاتے ہیں کہ ہم الیکٹرک گاڑیوں کے دور میں پہلے سے ہی داخل ہو چکے ہیں، 40 لاکھ گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں اور ان کا اندازہ ہے کہ اگلے چھ ماہ میں ایسی مزید 10 لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر ہوں گی۔

ماہرین کے اندازوں کے مطابق سنہ 2030 تک 100 ملین الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر ہوں گی۔

کیا ہم اپنی گاڑیوں کا کنٹرول ایک کمپیوٹر کو دینا چاہیں گے؟

ڈرائیونگ لا لطف اٹھانے کے لیے بھی لوگ گاڑئ چلاتے ہیں

Michael Cole/Getty Images
صرف ڈرائیونگ کا لطف اٹھانے کے لیے بھی لوگ گاڑی چلاتے ہیں

گیری مارکس نیویارک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں جنھوں نے ایک آرٹیفیشل انٹیلجنس کمپنی بھی بنائی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرائیونگ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے آزادی کا احساس ہوتا ہے‘ لیکن ان کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ ہم ایسا ہمیشہ کرتے رہیں یا کرتے رہنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ آخر کار بحث تحفظ پر ہوگی اور ’ایک دن آئے گا کہ خودکار گاڑیاں لوگوں سے زیادہ محفوظ ہوں گی‘۔

لیکن ان کے مطابق ہم اگلے دس برس میں مکمل طور پر خود کار ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرنے لگیں گے بلکہ خود کار ٹیکنالوجی کو گاڑیوں کو مکمل طور پر احتیاط کے ساتھ چلانے کا چیلنج پورا کرنے میں ابھی چند دہائیں لگیں گی۔

اس بات پر وہ لوگ سوال کر سکتے ہیں جنھوں نے گوگل کی ذیلی کمپنی ڈیپ مائنڈ کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پروگرام ’ایلفا زیرو‘ کو شطرنج کھیلتے دیکھا تھا۔ شطرنج سیکھنے کے صرف دو گھنٹوں کے اندر ایلفا زیرو انسانوں کو مات دے رہا تھا، چار گھنٹوں بعد وہ دنیا میں شطرنج کے بہترین کمپیوٹر کو شکست دے چکا تھا اور نو گھنٹوں میں وہ دنیا میں شطرنج کا بہترین کھلاڑی بن چکا تھا۔

لیکن پروفیسر مارکس کہتے ہیں کہ خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں پیش رفت زیادہ تیزی سے ہوئی ہی نہیں ہے اور گاڑی چلانا شطرنج کھیلنے سے زیادہ مشکل ہے اور جہاں کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

کمپیوٹر کو گاڑی سکھانا اتنا مشکل کیوں ہے؟

ایک گاڑی کو یہ سکھانا کہ وہ انسان کے بغیر خود کو کیسے سنبھالے، اس معاملے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں بھی یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اس کی بھی حدیں ہیں۔ کمپیوٹر بعض چیزیں ہوشیار سے ہوشیار انسان سے بھی بہتر کر سکتا ہو گا لیکن بعض ایی چیزوں میں ناکام ہو جاتا ہے جنھیں بدھو سے بدھو انسان بھی باآسانی کر لیتا ہے۔

پروفیسر مارکس کہتے ہیں کہ اہم چیز یہ ہے کہ ڈرائیونگ کرتے وقت غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

ایک خود کار گاڑی 99.99 فیصد کامیاب ہو سکتی ہے لیکن باقی کے 0.01 فیصد بھی اس بات پر یقین کیسے کیا جائے کہ وہ دوسری گاڑیوں سے ٹکرائے گی نہیں یا کسی راہ گیر کو کچل نہیں دے گی؟

ایک موٹروے کے ماحول کے علاوہ یہ گاڑیاں کسی دوسرے ماحول میں محفوظ نہیں اور اسی حقیقت کے ادراک کی وجہ سے نئی ٹیکسی کمپنیوں کے خودکار گاڑیوں کے انقلاب کے نعرے ماند پڑ گئے ہیں۔

مثال کے طور پر اووبر نے خود کار ٹیکنالوجی میں لاکھوں ڈالر کے سرمایا کاری کی ہے۔ سنہ 2014 میں اس وقت کے اووبر کے سربراہ ٹریوس کلانِک کا کہنا تھا کہ خودکار گاڑیاں ڈرائیوروں کی جگہ لے لیں گی۔

لیکن اب زیادہ جوش میں بھی صرف ایک ’ہائیبرِڈ نیٹ ورک‘ کی ہی بات کی جاتی ہے۔

اووبر کے ٹراسپورٹیشن پالیسی اور ریسرچ کے سربراہ اینڈریو سالزبرگ کا کہنا ہے کہ ’ایسے وقت اور جگہیں ہوں گی جہاں سے ایک خودکار گاڑی کسٹمر کو اٹھائے گی اور پھر ایسی وقت، جگہ اور موسمیاتی صورتحال ہوگی جہاں کچھ وقت تک تو اووبر ایسے ہی ڈرائیورز کے ساتھ چلتی رہے گی جیسے آج چل رہی ہے۔‘

کیا دیہی یا دور دراز علاقوں میںان ٹیکسی سروسز کی طلب ہے بھی؟

برطانیہ کے علاقے کورنوال کی ایک سڑک

Education Images/Getty Images
موٹروے کی سیدھے اور طویل راستے تو ٹھیک لیکن کیا خود کار گاڑیاں آرٹے ترچھے راستوں کو سمجھ سکیں گی؟

سالز برگ کہتے ہیں کہ اووبر نے اب تک جو ڈرامائی تبدیلیاں کی ہیں وہ کیلیفوریا کے چھوٹے اور دیہی علاقوں میں ہی کی ہیں۔

زیادہ تر دور دراز علاقوں میں ٹیکسی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن سالزبرگ کا دعویٰ ہے کہ اب ان کی کمپنی کیلیفوریاں کے ایسے دور دراز علاقوں میں پانچ سے دس منٹ میں گاڑی پہنچا دیتی ہے۔

سالزبرگ کہتے ہیں کہ ایسے علاقوں میں کسٹمرز کی معقول تعداد ہونے اور گنجان آباد نہ ہونے کے باوجود بھی لوگ اووپر چلانے کا پیشہ اپنا رہے ہیں جس سے ان کا نیٹورک بڑھ رہا ہے اور رسائی ممکن ہو رہی ہے۔

خلاصہ:

تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ’روبو ٹیکسیوں‘ کے انقلاب کے تین میں سے دو جُز الیکٹرک گاڑیاں اور ایپ کے ذریعے چلنے والے ٹیکسی نیٹورک تو کامیابی سے چل رہے ہیں۔

لیکن اس کا تیسرا جُز جو کہ خودکار گاڑیاں ہے، اس میں ابھی ایک طویل سفر باقی ہے۔

فون پر اولا کی ایپ

Ola
انڈیا میں ایپ کے ذریعے چلنے والی ٹیکسی سروسز میں ‘اولا’ بھی شامل ہے جس کی سروس گذشتہ برس برطانیہ میں بھی شروع کر دی گئی ہے

120 ارب ڈالر کی شرط کہ ذاتی گاڑیوں کے دن کم رہ گئے ہیں؟

ایسی قوتیں ہیں جو اس بات کو سوچنے پر مجبور کر ہی دیتی ہیں کہ ذاتی گاڑیوں کے دن تھوڑے ہیں۔

گذشتہ ہفتے اووبر نے اپنے شیئر امریکی سٹاک مارکیٹ میں لانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

کمپنی کی کل مالیت 120 ارب ڈالر لگائی گئی ہے اس کے باوجود کہ کمپنی نے گذشتہ برس ستمبر تک کے تین مہینوں میں ایک ارب ڈالر کے خسارے کا اعلان کیا تھا۔

تو خسارے کے باوجود اووبر کی مالیت اتنی زیادہ کیوں ہے؟

نقل و حمل کا کاروبار دنیا کے بڑے کاروباروں میں سے ہے اور اس کے مستقبل کی جنگ میں اووبر کو ہر اول دستے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ایسے بہت سے شواہد ہیں کہ اس مارکیٹ میں تبدیلیاں آنی شروع ہوگئی ہیں اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برطانیہ میں 2018 میں 2017 کے مقابلے میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی دیکھی گئی تھی جو کہ 2008 کے عالمی اقتصادی بحران کے بعد سے کسی بھی سال میں سب سے بڑی کمی تھی۔

اور وہ دن گئے جب ہم ایک نئی اور چمکتی کار کی آرزو کرتے تھے۔ 20 کے پیٹے میں لوگ تو آج کل ڈرائیونگ ٹیسٹ دینے کی زحمت ہی نہیں کر رہے کیوں کہ ان کے پاس نقل و حرکت کے دوسرے ذرائع موجود ہیں۔

لائم کے سکوٹر

اووبر نے حال ہی میں کرائے پر دی جانے والی ایلکٹرک سائیکلوں اور سکورٹروں کی کمپنی لائم میں سرمایہ کاری کی ہے

اووبر کے اینڈریو سالزبرگ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اکیسویس صدی میں بالغ ہونے والے کئی افراد کبھی ذاتی گاڑی نہیں خریدیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ اپنے لیے وہ منتخب کرتے ہیں جو ان کے لیے آرام دہ ہو‘۔

اووبر نے اب اپنی توجہ نقل و حمل کے دیگر ذریعوں پر مرکوز کی ہے اور حال ہی میں کرائے پر دی جانے والی ایلکٹرک سائیکلوں اور سکوٹروں میں سرمایاہ کاری کی ہے۔

سالز برگ کہتے ہیں ’یہاں سان فرانسسکو میں صبح کے وقت آپ بائیک پر جلدی کام پر پہنچ سکتے ہیں لیکن شاید رات کو آپ کو ائیرہورٹ جانے کے لیے گاڑی کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے‘۔

اب بہت سی کمپنیاں اووبر کی طرح نقل و حمل کے دیگر ذرائع متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تو چاہے ابھی ’روبو ٹیکسی‘ کا انقلاب آنے میں وقت لگے گا لیکن لوگوں کی پاس بہت سی ایسی وجوہات ہیں کہ وہ اپنی ذاتی گاڑی نہ خریدنے کی سوچ ترک کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp