وزیر اعظم کو بتایا جا چکا ہے کہ ان کے پاس چھ ماہ سے زیادہ وقت نہیں


برادرم حامد میر کے صاحب زادے کے ولیمے میں شرکت کے لئے کافی عرصے بعد اسلام آباد جانا ہوا تو بہت پرانے دوستوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ ٹیکنالوجی کی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود ابھی تک سامنے بیٹھ کر بات کو سننا اور کہنا اپنی الگ ہی لذت رکھتا ہے۔ ساری شام کی گپ شپ کو اگر مختصر ترین مثال سے واضح کروں تو وہ یہ ہو گی کہ پی ٹی آئی اور طاقتور حلقوں کے باہمی تعلقات عین اسی طرح کے مدوجذر سے گزر رہے ہیں جس طرح عام طور پر لو میرج کے بعد آسمانوں کی بلندیوں جیسی توقعات لئے دو فانی انسان حقیقت کی سنگلاخ چٹانوں پر ننگے پیر سفر شروع کرنے پر گزرتے ہیں۔

عشق و محبت کی داستانیں اگر کامیاب ہو جائیں تو باقی زندگی نصیحتیں دیتے گزرتی ہے کہ کبھی عشق نہیں کرنا چاہیے۔ انسانوں کے مابین امیدوں کا بکھرنا عام سی بات ہے مگر جب اس کا ملبہ اداروں کو اٹھانا پڑے تو ساری قوم بالواسطہ اس کی قیمت ادا کرتی ہے۔ مگر اپنے لئے کون سی نئی بات ہے۔ افراد اور اداروں کا یہ عشق و محبت پر مبنی سیاسی نقشہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ اس ملک کا قیام۔ عشق و محبت کا پہلا شکار عقل ہوتی ہے۔

اس ایک کسوٹی کو سامنے رکھیں اور گنتے چلیں جائیں۔ اس میدان میں بھی جنگ وہی جیتتا ہے جس کے پاس طاقت ہو، مثال کے طور پر قوم کو مادر ملت سے محبت تھی مگر طاقتوروں کا عشق ایوب خان، نہ صرف جیت گیا بلکہ آج تک جیتا ہوا ہے جس کی مثال حال میں عمران خان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے ایوب خان دور میں ہوئی ترقی کو خراج تحسین پیش کیا اور ایک بحث شروع ہو گئی۔ اس بحث میں سب کچھ گنوایا گیا سوائے فاطمہ جناح کی ان تقریروں کے جو وہ بے بس عوام کے سامنے کرتی رہیں یا سوائے اس بے رحم دھاندلی کے، جو ہوئی۔

بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت بنتے ہی اس کے خلاف کام شروع ہو چکا تھا اور یوں ان کی حکومت غیر سیاسی تو کیا غیر انسانی معاہدوں کے باوجود نہ بچ سکی جس کی سمجھ بھی آتی ہے مگر یہ منفرد اعزاز عمران خان کے حصے میں آیا ہے کہ اسے لانے والے محض پانچویں مہینے میں ہی متحرک ہو چکے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا پاکستان میں قانون کی حکمرانی اس سطح پر چمک رہی ہے کہ کسی بھی وزیر مملکت برائے داخلہ کو، کوکین یا کوئی اور نشہ، سپلائی کرنے والے پر این ایس ایف یا پولیس ہاتھ ڈال سکے۔

یہ علیمہ خان کی بیرون ملک پراپرٹی کی خبر اچانک کہاں سے آئی، بیان کردہ تفصیلات کا نزول کہاں سے ہو گیا۔ اب اس کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں عین اسی طرح جیسے پارک لین، لندن پر واقع نواز شریف کے فلیٹس کی ہوئی تھیں۔ کیوں کہا جا رہا ہے کہ اس سال کے آخر تک اصل تبدیلی آ جائے گی اور اگر ان اسمبلیوں کے اندر سے نہ آئی تو سب کچھ لپیٹ دیا جائے گا، یہ ذہنی تیاری کیوں کروائی جا رہی ہے۔ میں لاہور میں دو اہم اور لائق اعتماد ترین ذرائع کے حوالے سے خبر دے رہا ہوں کہ چوہدری شجاعت حسین، وزیر اعظم کو صاف بتا چکے ہیں کہ ان کی حکومت اگر درست راستے پر نہ چلی تو ان کے پاس چھ ماہ سے زیادہ وقت نہیں۔

چوہدری صاحب نے ایسا کیوں کہا۔ آپ نے چوہدری پرویز الٰہی کی ویڈیو دیکھ لی جس میں وہ جہانگیر ترین کو بتا رہے ہیں کہ سرور کو روکو وہ پنجاب میں کام نہیں چلنے دے گا۔ یہ ویڈیو کس نے بنائی، خود پرویز الٰہی کے سٹاف نے، لیک کس نے کی، خود پرویز الٰہی کے سٹاف نے، بعد میں کیا ہوا، کہا گیا کہ یہ غلطی تھی جس کی وجہ سے اندرونی گفتگو باہر آئی، سوچیں ذرا کہ اگر یہ غلطی نہیں تھی تو۔

لائق احترام حسن نثار، ارشاد بھٹی اور اے آر وائی کو کیا ہوا۔ ہارون رشید کا تو سمجھ آتا ہے کہ انہیں وہ اہمیت نہیں ملی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے مگر اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال تو عمران خان کی اکثر شاموں کے ساتھی ہیں۔

عرصہ ہوا تھا ڈاکٹر مبشر کی شاہراہ انقلاب پڑھے، ستم یہ کہ کتاب ایک بار نہیں، دو بار دوستوں کے حوالے کر بیٹھا، اسے آوٹ آف پرنٹ ہوئے عرصہ بیت چلا، خود ڈاکٹر صاحب کے پاس بھی اب کوئی کاپی نہیں بچی۔ بھلا ہو نجم سیٹھی کی ٹیم کے عمر جاوید کا جنہوں نے کتابوں کے ذاتی خزانے کا منہ کھول کر اس فقیر کا دامن بھرا اور مجھے کتاب دے کر وہ خطرہ مول لیا جو شاید میں کبھی نہ لیتا کیوں کہ اسی حرکت سے میں دو بار اس کتاب سے محروم ہو چکا ہوں۔

اس کتاب کو پڑھ کر مغل سلطنت کے زوال کی جو ٹھوس معاشی اور سماجی وجوہ سمجھ آتی ہیں اس کے بعد لگتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں آئی تو کاروبار ہی کے لئے تھی مگر یہ برصغیر کے حالات تھے جس نے اسے حکمرانی عطا کرنی ہی تھی۔ آسان الفاظ میں آپ کسی بازار میں دکان کھولتے تو معاشی فوائد کے لئے ہیں لیکن اگر اس بازار کا نظم ونسق چلانے والے آئے دن ناکام ہو تے ہوں اور دکان داروں کی اکثریت ان کے جھگڑوں سے موت کے گھاٹ اترتی ہو تو پھر اس بازار کا نظم چلانے والوں کو بدلنا اور ان کی جگہ لے لینا ہی واحد راستہ ہوتا ہے دوسرا راستہ معاشی موت ہے جو آپ ظاہر ہے کسی صورت نہیں چنیں گے۔

آئیے اب کتابوں ( آئین کی کتاب سمیت ) کو دور رکھ کر عملی پاکستان میں آتے ہیں۔ جمہوریت کا موجودہ ماڈل خود ان ممالک میں دفاعی پوزیشن اختیار کر چکا ہے جہاں اس کا بول بالا تھا۔ چین کی ترقی نے اس دیوتا کی جڑوں میں دیمک سی لگا دی۔ مگر اس کا تعلق میں پاکستان سے نہیں جوڑتا کہ یہاں تو جمہوریت نامی شے ابھی لیبارٹری میں تیاری کے عمل میں ہی ہے، مگر اس کا تعلق سامنے کی اس سچائی سے ضرور ہے کہ بازار کو چلنا ہے، دھندا نہیں رکنا چاہیے۔

چین کی خاموش ڈپلومیسی کی ایک دنیا گواہ ہے۔ گہرے سے گہرے اختلافات بھی وہ گہرے سمندروں کے ظرف لئے حل کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتے، عمل بھی کرتے ہیں۔ ایسا کیا ہو گیا کہ چین کا سفیر، لاہور چیمبر آف کامرس میں تقریر کے دوران پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے، سب جانتے ہیں کہ عوامی اجتماع میں بات تب ہی کی جاتی ہے جب سفارت کاری ناکام ہو جائے کیونکہ وہاں کوئی سننے والا نہ ہو، سنے تو عمل کرنے والا کوئی نہ ہو اور آخری مگر خطرناک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمل کروانے والا طاقت یا صلاحیت اور یا پھر دونوں سے محروم ہو۔

اب کیا کیا جائے گا۔ چین ہمارا بہترین دوست ہوتے ہوئے ہمیں وہی راستہ دکھائے گا جس پر وہ خود چل رہا ہے۔ یہاں اس کی ایک مکمل تاریخ موجود ہے۔ آج بھی آپ سنتے ہیں نا، کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا، کیوں نہ صدارتی نظام کو پھر آزما لیں۔ صوبوں کو مالی اختیارات دینا غلطی تھی۔ واپس لینا ہوں گے۔ سارے سیاست دان ناکام ہو چکے وغیرہ۔ سیاسی تبدیلی کا اصل وقت اس سال کا آخر کیوں بتایا جا رہا ہے۔ اور سب سے اہم یہ سوال یہ کہ کیا یہ سب کچھ اتفاق ہے۔

فرض کریں کہ آپ خود پاکستانی طاقت کے اصل مرکز کے مالک ہوں، ملک کے طول وعرض میں بے چینی کے دھماکے پھوٹ رہے ہوں، میڈیا کا وسیع حلقہ ہاتھ جوڑ کر جمہوریت سے توبہ کر رہا ہو، قومی سطح پر کوئی ایک بھی سیاسی لیڈر نہ بچا ہو، تمام سیاسی قیادت عوامی سطح پر کرپشن کی وجہ سے اعتماد کھو چکی ہو، چین اپنا یار ہو اور اس کی واحد شرط اور تقاضا، استحکام اور ڈسپلن ہو اور عمر کے اس حصے میں، سامنے یا تو ریٹائرمنٹ کی گمنامی ہو یا پھر تاریخ میں نیا کردار ادا کرنے کا موقع، تو آپ کس کو چنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).