مہنگی ادویات، غریب مر کیوں نہیں جاتا؟


بات آئی ایم ایف کے آگے قرضہ لینے کے لیے دُم ہلانے کے بعد اپنا قومی وقار گروی رکھواتے ہوئے معیشت کا پہیہ چلانے پر ختم نہیں ہوتی، بات تو یہاں سے شروع ہوتی ہے اور پہلے سے سسکتی بلکتی قوم کی بھوک، ننگ، افلاس، بیماری، بے چینی اور بیروزگاری میں مزید اضافے سے ہوتی ہوئی دم توڑتی سانسوں تک آ پہنچتی ہے۔ شروع دن سے سنجیدہ معیشت دان اور خودداری کے فلسفے سے متاثر بیشتر حقیقت پسند پاکستان کے انٹرنیشنل ڈونرز (World Bank and آئی ایم ایف ) سے قرضہ لینے کے خلاف رہے ہیں اور اس حوالے سے بہت سے قابل عمل حل، متبادل پلاننگ یا اقدامات کے طور پر دیتے رہے ہیں لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟

موجودہ حکومت نے گزشتہ پاکستانی حکومتوں کی طرح وہی بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے والی مثال پر پورا عمل کرتے ہوئے ہاتھ سے نکلتی معیشت کو قرضوں سے قبضے میں لینے کی جو کوشش کی ہے اُس کے گلے سڑے، غیر موزوں اور مہلک ”ثمرات“ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، ہوا یہ ہے کہ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی قیمتوں میں 9 سے 15 فیصد اضافے کی منظور دے دی ہے جس کے بعد جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 9 فیصد جبکہ دیگر ادویات کی قیمت میں 15 فیصد اضافہ کر دیا جائے گا۔

وجہ اس اضافے کی یہ بتائی جا رہی ہے کہ دوائیوں کی قیمت میں اور ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں کمی کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ رہی تھیں اور یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں تھیں۔ میرے وطن کے سیدھے سادھے عوام کے ساتھ تو حکمران پڑھا لکھا اور مُدلل جھوٹ بولنا بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ معلوم ہے سوال کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ بے چارے تو ہر ظلم ہر اضافہ خاموشی سے سہہ جائیں گے۔

جدید سرمایہ دارانہ نظام، جس سے دنیا کی مختلف مضبوط معیشت کے حامل ملکوں کے عوام بھی اب تنگ آچکے ہیں، نے دنیا میں ہر جگہ حکومتوں کو اپنی عوام کو بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں جیسے تعلیم، صحت، رہائش، پانی، خوراک وغیرہ مفت یا انتہائی سستے داموں فراہم کرنے سے روکا اور دنیا بھر میں چند بین الاقوامی کمپنیوں اور بزنس جائنٹس کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ انہی بنیادی ضرورتوں کو اپنا کاروبار بنا کر تمام دنیا میں ہر جگہ اپنا یہ چُورن مہنگے اور پھر مزید مہنگے داموں بیچنا شروع کر دیں۔

تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک سب سے زیادہ اس تجارت کی بھینٹ چڑھے اور ابھی چڑھ رہے ہیں۔ یعنی آپ صرف صحت کی بات کریں تو اندازہ لگائیں آپ کے انگ انگ سے ٹیکس نچوڑنے والی حکومت کا یہ عین فرض ہے کہ وہ کم از کم آپ کو صحت کی سہولت مفت فراہم کرے۔ مفت کیا یہاں تو خود عوام کے لیے خریدنے کو بھی مشکل بنایا جارہا ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں نے رونا وہی ڈالر کی بڑھتی قدر، تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ کی شرح میں اضافہ بتایا ہے۔

اب بات وہیں پر آگئی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ تو ہم سے آئی ایم ایف نے کروایا ہے کہ اگر ایسا نہیں کرو گے تو قرضہ نہیں ملے گا۔ اس پر مزیدار بات یہ کہ پاکستان میں ادویات سازی کا خام مال بالخصوص اور ادویات بالعموم زیادہ تر چائنہ اور امریکہ سے درآمد کی جاتی ہیں اور یہی دونوں ممالک ہمیں قرضہ دینے میں سرفہرست بھی ہیں تو مطلب ہم وہ لوگ ہیں جو احسان بھی لیتے ہیں اور احسان کی قیمت سے سینکڑوں ہزاروں گُنا زیادہ قیمت سُود سمیت اپنے غریب عوام کا خون چوس کر ادا بھی کرتے ہیں۔ نام پھر بھی نہیں ہوتا۔

آپ کے ریکارڈ کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ دنیا نیوز کے مطابق قریبا 1087 ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں گائنی امراض سے متعلق ایک مخصوص انجیکشن OCEREVUS کی قیمت 7 لاکھ پچاس ہزار روپے ہو جائے گی جو بھارت میں صرف 4 ہزار روپے کا مل جاتاہے اور گھٹنوں میں دوائی کے طور پر استعمال ہونے والا ٹیفی نلر کیپسول 7266 روپے فی عدد کے حساب سے میسر ہوگا جو بھارت میں محض 28 روپے فی عدد دستیاب ہے۔ اشیائے خوردونوش میں اضافہ پہلے ہی عوام کے کس بل نکال چکا ہے، یقینا موجودہ حکومت لوگوں کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے ”صاف نیت“ سے کوشاں ہے، جبھی تو لوگوں کو دوائی کھا کر اس زندگی کے عذاب کو مزید جھیلتے رہنے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).