یہ جو پنڈی سے محبت ہے


کراچی کی بریانی، حیدرآباد کی چوڑیاں، ہالہ کا لکڑی کا فرنیچر، سکھر کا قینچی کا پل، ملتان کا سوہن حلوہ، لاہور کا قلعہ، کوئٹہ کے میوے، پشاور کے پھول سمیت روالپنڈی جی ایچ کیو کی وجہ سے ممتاز ہے۔ میں نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں آنکھ کھولی مگر حیرت کی بات ہے کہ مجھے پنڈی سے ایک الگ ہی انسیت اور لگاؤ ہے۔ نومبر 2016 میں فری لائنس بیس پر ایک اسائمنٹ کے سلسلے میں پنڈی جانا پڑگیا تھا۔ اس دوران اس پریشانی نے آن لیا تھا کہ پنڈی جانے کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ قیام کہاں کیا جائے۔ جس کا اظہار میں نے اپنی دوست انعم ندیم سے کیا جو کہ پنڈی کی رہائشی تھی۔ اس نے مجھے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ اگرچہ میں نے اس سے مناسب کرایہ کے قیام گاہ کے انتظام کی ریکویسٹ کی تھی مگر پنڈی والوں کی مہمان نوازی کے کیا کہنے۔ انعم کی جانب سے مکمل تعاون اور تسلی پر میں نے پنڈی کا رخت سفر باندھا۔

میں تین بھائیوں کی اکلوتی اور چھوٹی بہن ہوں لہذا بھائیوں کی تشویش فطری تھی۔ اماں کو راضی کر گھرکی دیلیز پار کرنا، ایک الگ مشکل ترین مرحلہ تھا، مگر جناب سر پر بڑا صحافی بنے کی دھن سوار تھی۔ عمر بھی کوئی کم نہ تھی 28 برس کی عمر بہرحال ایک مکمل میچور ایج ہوتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے، گھر والوں کو کسی حد تک مطمن کرکے کنول، اپنی زندگی جینے نکل پڑی۔

گرین لائن کا ٹکٹ مہنگا تو ہے مگر سفر نہایت پر سکون اور آرام دہ ہوتا ہے۔ میں پہلی بار شہر سے دور اکیلے سفر کررہی تھی۔ اس بات کی ایسی خوشی تھی جسے لفظوں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ لیڈیز کمپارٹ میں سیٹ ہونے کی وجہ سے کوئی فکر بھی نہ تھی۔ قلی نے سامان رکھتے ہی بتا دیا تھا، باجی، ٹرین دس بجے کراچی کینٹ چھوڑ گی تے فیر کل رات دس بجے ہی پنڈی کینٹ پہنچے گی۔ چونکہ میں بہت جلد پہنچ گئی تھی۔ اس لئے ٹرین خالی تھی۔

ایک ادھیڑ عمر پولیس والا میرے پاس آیا، بولا بیٹا اکیلی ہو میں نے کچھ ڈر کر ہاں بولا تو بولے کوئی بات نہیں بیٹا و یسے تو یہ لیڈیز پورشن ہے مگر اگر کوئی مرد آیا تو بتا دینا میں اسے کہیں اور ایڈجسٹ کردوں گا۔ پھر وہ ٹکٹ چیکرکو لے کر آئے اس سے کہنے لگے یہ بچی اکیلی ہے خیال رکھنا۔ ٹکٹ چیکر کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں یہ جگہ مستورات کی جا گیر ہے۔ او کڑیے تسی پریشان نہ ہوا۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ اسی اثنا میں پولیس والے انکل نے مجھے ٹی وی کا ریموٹ لا کر دیا کہا بیٹا جب تک ہم سفر نہیں آجاتے ٹی وی دیکھو۔

کچھ دیر بعد مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ٹرین کے عملے نے تکیہ چادر اور صبح، فریش ہونے کے لئے ٹوتھ پیسٹ کڈ فراہم کی۔ ٹھیک دس بجے ٹرین کراچی کینٹ سے پنڈی کینٹ کے لئے روانہ ہوئی۔ اس دوران گھروالوں کی تشویشی کالز کے ساتھ لطف سفر جاری رہا۔ ہر کال میں امی اور بھائیوں کو تسلی دینا ابتدا میں مزے دارتاہم بعد میں اذیت ناک لگنے لگا تھا یا تو میں گھر والوں کو کنونیس نہیں کر پارہی تھی یا وہ کنونیس ہونے پر راضی نہیں تھے۔

بہرحال سکون جب ہوا جب نیٹ ورک کے سگنلز چلے گئے۔ سچ اس وقت سابق وفاقی وزیر داخلہ بہت یاد آئے۔ اس وقت خیال آیا، نیٹ ورک سگنلز نہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس وقت میں نے دل ہی دل میں رحمان ملک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سچ ہی کہا تھا رحمان ملک نے یہ موبائیل فون کسی بم سے کم نہیں ہے۔ ٹرین میں وائی فائی کی سہولت کی وجہ گھر والوں نے واٹس ایپ پر رابطہ بحال کر لیا۔ دراصل غلطی میری تھی انعم سے رابطہ کرنے کے لئے واٹس ایپ پر آن لائن ہوئی اور پھر گھریلو تشویش کی قسط کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔

اس وقت احساس ہوا لوگ پریویسی کیوں لگاتے ہیں۔ سارا بھنڈ لسٹ سین کی وجہ سے ہوا تھا۔ المختصر وہ رات مختلف تجربات سے مزین تھی۔ بہرحال سفر جاری رہا، سفر کے ہم سفر بھی بہت اچھے تھے۔ ان میں خواتین پر مشتمل کچھ فمیلی اراکین تھے جو بچوں کے ہمراہ پنڈی میں کسی عزیز کی شادی میں مدعو تھے۔ نوعمر مسافر لڑکیاں رات بھر مایوں، مہندی، رت جگا، بارات اور ولیمے کی تیاری اور گانوں کی پریکٹس کرتی رہیں جبکہ اپنی اپنی اماؤں اور مشترکہ دادی جان سے ڈانٹیں بھی کھاتی رہیں۔

کمپارٹ کی بہت سی خواتین ان سے نالاں تھیں جبکہ مجھے سب کچھ اچھا لگ رہا تھا کیونکہ یہ میرا پہلا طویل ترین اور اکیلا سفر تھا۔ نہ کوئی خوف، نہ کسی کی روک ٹوک کی فکر، بس رات اندھیری اور ٹرین کی سیٹی۔ شاندار سا احساس جیسے آج بھی محسوس کرتی ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ رات سوتے جاگتے اور گھروالوں کی کال لیتے بسر ہوئی۔ صبح کا منظر بہت دلفریب تھا۔ ٹرین کی کھڑکی سے نظر آتے پنجاب کے لہلاتے کھیت آنکھوں کو بھلے محسوس ہو رہے تھے۔

اس دوران کچھ بھوک بھی محسوس ہو ئی مگر میں جلدی جلدی میں کوئی بھی کھانے کی چیز نہیں رکھ پائی تھی تاہم کچھ دیر بعد ہی ٹرین کے عملے کی جانب سے ناشتہ پیش ہونے کی نوید سنائی گئی تو اطمینان ہوا۔ ناشتے کہ بعد ہم سفر خواتین سے باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا مجھ سمیت سب کو ہی اپنی منزل آنے کا انتظارتھا مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آنے کا بھی انتظار تھا آ خر کار سہ پہر کے وقت لاہور آیا۔ لاہور اسٹیشن واقعی بہت خوبصورت ہے۔

لال اینٹوں سے بنے لاہور اسٹیشن کی عمارت کسی قلعے سے کم نہیں لگتی ہے۔ ٹرین نے بیس منٹ کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ بلاآ خردس تو نہیں البتہ ساڑھے دس بجے ٹرین نے پنڈی کینٹ پر سلامی دی۔ مجھے یاد ہے، انعم کی بہن اور امی مجھے لینے آئی تھیں۔ مریم بالکل چھوٹی بہنوں کی طرح ملی جبکہ انٹی کا روئیہ بھی انتہائی شفقت بھرا تھا۔ مجھے پنڈی کے موسم کی خبر نہیں تھی اگرچہ انعم باخبر کرچکی تھی کہ وہاں ٹھنڈ کا راج شروع ہو چکا ہے مگرہم کراچی والوں کو دسمبر تک میں گرم کپڑے زیب تن کرنے کی حاجت نہیں ہوتی جبکہ وہ تھے اوائل نومبر کے دن۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2