برگد کے آسیب زدہ درخت میں لاپتہ ہوتی آوازیں


بچپن میں ایک سندھی لوک کہانی گیت کی صورت بڑی بوڑھیاں گنگناکر سنایا کرتی تھیں۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ
ایک تھی ”ادی سونل“
اس کی شادی ہونے جارہی تھی
ایک دیو اس پر عاشق تھا
عین شادی کے دن دیو نے اسے اٹھاکر برگد کے بوڑھے درخت میں لاپتہ کردیا۔
بارات آگئی مگر ادی سونل لاپتہ تھی۔

ادی سونل کا دکھیارا بھائی اب گیت گاتے ہوئے درخت تلے کھڑا بہن کو آوازیں دینے لگا، تاکہ باراتی یہ نہ سمجھیں کہ ادی سونل موجود نہیں۔ بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ بھائی بہن کی رخصتی کے دکھ میں گیت گا رہا ہے۔

گیت کچھ یوں تھا (ترجمہ)
بھائی:
ادی سونل!
ادی سونل!
درخت سے نیچے اتر
دیکھ گھر میں اتری ہے تیری برات
سُن ڈھولک کی تھاپ
اور نقاروں کی گونج
دیکھ رقص میں ہیں رقاص
ادی سونل
درخت سے نیچے اتر

ادی سونل جو پرانے آسیب زدہ درخت کی انگنت الجھی ٹہنیوں میں کہیں جکڑی پڑی ہے، بھائی کو گیت کی صورت جواب دیتی ہے
ادا رے ادا!
آنکھوں میں سوئیاں بھری آسیب نے
بال ٹہنیوں سے بندھے
بازوؤں میں اٹھنے کی سکت نہیں
توُ لوٹ جا
برات کو بتا
سونل کو آسیب اٹھا لے گیا

یہ بھولا بسرا ادھورا سا گیت، برسوں بعد مجھے بے اختیار تب یاد آیا، جب مریم نواز نے گہری خاموشی اوڑھ لی۔ ایک ایسی خاموشی جسے اگر محسوس کیا جائے تو ایک سرد سی لہر سنسناتی ہوئی رگِ جاں سے گزر جائے! جیسے کوئی غیر مرئی طاقت کان میں ہوا کی طرح سرسراتی سرگوشی کرتی گزرے کہ خبردار اگر زباں کھولی! ہم جبر کے آسیب میں پلنے والے لوگ ہیں۔ ہم سے زیادہ کوئی کیا سمجھتا ہوگا کہ آواز کیسے دبائی جاتی ہے! للکارتا ہوا انسان اچانک کیسے سمجھوتے کی چادر اوڑھ کر، جاگتے ہوئے بھی سوتا بن جاتا ہے! انسان کے سمجھوتوں کے کئی پرَت ہوتے ہیں۔ مال و اولاد سے لے کر عزت و عصمت تک۔

گو کہ جبر تلے خاموشی ایک ایسی چیخ ہوتی ہے جس کے الفاظ نہیں ہوتے مگر جس کی گونج سے دھیرے دھیرے وہ دراڑیں پڑنا شروع ہوتی ہیں، جنہیں آنے والے زمانوں میں بھرا نہیں جاسکتا۔
پھر دراڑوں والے مکان میں ہی گزارا کرنا پڑجاتا ہے، جیسے باقی بچ رہ گیا ”مغربی پاکستان“!

بڑی بوڑھیوں سے سنا ہوا ادی سونل کے لاپتہ ہونے کا گیت اب اکثر یاد آیا کرتا ہے، یہ دیکھ کر کہ آھستہ آھستہ ایک ادی سونل ہی کیا بلکہ ادی سونل کی بارات سمیت، کئی لوگ چُن چُن کر برگد کے آسیب زدہ درخت میں لاپتہ ہورہے ہیں۔
برگد کا درخت بھرتا چلا جارہا ہے۔
اور زبانیں جو بولتی تھیں، برگد کی ٹہنیوں میں جکڑی پڑی ہیں اب۔
آزاد ہیں تو فقط وہ زبانیں جو برگد کے دیو کی اطاعت گزار ہیں!
ان اطاعت گزار مادر پدر آزاد زبانوں کا بھی ایک ہجوم ہے جو برگد کے آسیب زدہ بوڑھے درخت کے پھیرے لے رہا ہے۔

بالکل اس طرح جیسے بھارت میں بعض توہم پرست لڑکی کی نحوست درخت سے پھیرے دلواکر اتارتے ہیں۔ بچپن میں ادی سونل کی کہانی سنانے والی انھی بڑی بوڑھیوں سے یہ بھی سنا تھا کہ جوں جوں آخری زمانہ قریب ہوتا جائے گا، انسانوں کا قد چھوٹا ہوتا جائے گا۔
آخری زمانے کے انسان بونے ہوں گے۔

تب میری چھوٹی سی سمجھ میں بچوں کی تصویری کہانیوں میں بنے ہوئے ڈیڑھ دو فٹ کے بونے آتے تھے۔ مگر اب آسیب زدہ درخت کے پھیرے لیتی زبانوں کا ہجوم کو دیکھتی ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ انسان بونا کیسے ہوتا ہے! انسان کا قد بونا نہیں ہوتا۔ انسان کا ذہن بونا ہوجاتا ہے۔ زبان بونی ہوجاتی ہے۔ طاقتور کی خوشنودی کے حصول میں بھی، اقتدار کے نشے میں بھی اور جبر کے خوف میں بھی انسان بونا ہوتا چلا جاتا ہے۔

مگر برگد کے درخت تلے بونوں کے بڑھتے ہوئے ہجوم میں مجھے اب بھی ادی سونل کو آوازیں دیتے بھائی جیسا ایک کردار ایسا بھی دکھتا ہے جو ادی سونل کا یا میرا ماں جایا نہ سہی، مگر جو مسلسل آوازیں دے رہا ہے کہ
لوگو!
برگد کے آسیب زدہ درخت سے نیچے اترو
دیکھو ہمارے آنگن میں دکھوں کی بارات اتری ہے

آؤ
ٹہنیوں بندھی زبانوں سے
دکھ کے گیت ملکر گائیں
جینے کا حق مانگیں
اور جینے دو کی صدا لگائیں
لوگو!
برگد کے آسیب زدہ درخت سے نیچے اترو

بونوں کے ہجوم سے اونچے اٹھتے قد کے اس نوجوان کا چہرہ دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اس طرح کے لیڈر ڈرائنگ روم میں نہیں بنتے۔ لیڈر اگر ڈرائنگ روم کلاس سے ہو تو بھی اسے اپنے وجود کا بیج زمین میں بونا پڑتا ہے۔ زمین سے اُگنا ہوتا ہے اسے۔ کیچڑ میں اتر کر مٹی بھرے لوگوں کو عشق کی جھپی ڈالنا ہوتی ہے۔ اور یہ عشق پشتو زبان کے حصے میں آیا ہوا ہے آج کل۔ ایسے عاشق کو بدزبانی کرکے قد بونا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

تاریخ میں ایسے ہی عاشقوں کو بقا ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم جذباتی لوگ ہیں۔ ہمارے پاس لیڈر کی پرکھ یہ ہے کہ جبر کے دنوں میں جب ہماری زبانیں خاموش ہوں تو لیڈر بولے اور ہمارے لیے قربانیاں دے۔ ہم سُکھ کی نیند سورہے ہوں مگر لیڈر کے لیے ہم جان سے کم قربانی پر راضی نہیں ہوتے۔ ہم جیسے لوگوں کے دل میں جان سے گزرنے والے لیڈر ہی زندہ رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف یہ راز جان گئے ہیں شاید! اسی لیے وہ جیل سے ہسپتال منتقل ہونے کا فائدہ لینے سے انکار کررہے ہیں اور جان و صحت کے لیے خطرہ مول لے رہے ہیں!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah