چیف جسٹس اور بینچ نے نواز اور مریم کی سزا کی معطلی کے خلاف نیب کی اپیل مسترد کر دی


پاکستان

تین دفعہ کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو احتساب عدالت سے کرپشن کے الزام میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ایون فیلڈ ریفرینس میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹین ریٹائرڈ محمد صفدر کو دی گئی سزا معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپیل مسترد کر دی ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے پیر کو اس معاملے کی سماعت کی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اس لیے عبوری حکم نامے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

سماعت کے دوران عدالت نے نیب کے پراسکیوٹر اکرم قریشی سے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان تینوں مجرمان کو بری کر دیا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا تو نہیں ہوا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بری ہو جائیں گے۔

اس پر بینچ میں موجود جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عبوری حکم نامہ اتنی تفصیل سے لکھنے پر عدالتِ عظمیٰ کو بھی کچھ تحفظات ہیں تاہم عبوری حکم نامہ مقدمے کی سماعت پر اثرانداز نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اس لیے عدالتِ عظمیٰ ماتحت عدالتوں کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

نامہ نگار کے مطابق جسٹس کھوسہ نے نیب کے پراسکیوٹر سے استفسار کیا کہ انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے کی منسوخی کی اتنی جلدی کیوں ہے جبکہ مجرم نواز شریف پہلے سے ہی جیل میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو شخص باقاعدگی سے احتساب عدالت کی کارروائیوں میں شریک ہوتا رہا ہو اور عدالت کے فیصلے کے بعد سزا کاٹنے کے لیے وطن واپس بھی آ گیا ہو وہ کیسے فرار ہو سکتا ہے۔

پاکستان

گذشتہ سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمات کا آغاز ہوا

اکرم قریشی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے فیصلے میں اس مقدمے کا میرٹ زیرِ بحث لائی ہے اس سے یہی لگ رہا ہے کہ ان تینوں مجرمان کو بری کر دیا جائے گا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز ایک خاتون ہیں اور ملکی قوانین میں خواتین کے لیے خاصی رعایت رکھی گئی ہے۔

خیال رہے کہ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کے مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد قومی احتساب بیورو نے دو ماہ بعد ستمبر میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے کے خلاف تین ریفرنسز دائر کیے تھے۔

ان تین میں سے پہلا کیس ایون فیلڈ ریفرنس تھا۔ تقریباً نو ماہ اور 107 سماعتوں پر محیط احتساب عدالت میں جاری اس مقدمے کا فیصلہ گذشتہ سال چھ جولائی کو آیا جب نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن میں اپنی بیمار اہلیہ کے ساتھ مقیم تھے۔

اس کے مطابق نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور ان کے داماد کیپٹین ریٹائرڈ صفدر کو جیل، قید اور جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف پر یہ الزام ثابت نہ ہو سکا کہ انھوں نے دوران حکومت اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی رقم بنائی لیکن نیب قوانین کے تحت انھیں معلوم ذرائع سے زیادہ آمدن رکھنے کے جرم میں دس سال جیل ہوئی جبکہ ایک سال قید نیب حکام سے تعاون نہ کرنے پر ہوئی۔ اس کے علاوہ ان پر اسی لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

سزا کے خلاف ملزمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے ستمبر 2018 میں ان سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر جیل سے رہا ہو گئے۔

نیب کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان

لندن میں واقع شریف خاندان کی ایون فیلڈ پراپرٹی

ایون فیلڈ ریفرنس کیا ہے

اپریل 2016 میں پاناما پیپرز کی مدد سے سامنے آنے والی ایون فیلڈ پراپرٹی لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فئیر اور پارک لین کے نزدیک واقع چار رہائشی اپارٹمنٹس ہیں جو کہ نوے کی دہائی سے شریف خاندان کے زیر استعمال ہیں۔

شریف خاندان پر الزام ہے کہ انھوں نے اس پراپرٹی کو غیر قانونی ذرائع کی مدد سے حاصل کی گئی رقم سے خریدا ہے۔

لیکن شریف خاندان کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی 1993 سے لے کر 2006 تک قطر کے شاہی خاندان کی ملکیت تھی لیکن شریفوں نے وہاں رہائش اختیار کی تھی جس کے لیے وہ وہاں کے کرائے اور دوسرے اخراجات خود اٹھاتے تھے۔

خاندان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک غیر رسمی معاہدہ تھا جسے کرنے والے دونوں افراد، نواز شریف کے والد محمد شریف اور موجودہ قطری حکمران کے والد شیخ جاسم بن جبر الثانی فوت ہو چکے ہیں۔

پاکستان

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی جیل کی سزا ہوئی تھی

شریف خاندان کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں میں قطری شہزادے حماد بن جاسم کا خط بھی اسی بیان کی تصدیق کرتا ہے جس کے مطابق 2005 میں اسی لاکھ امریکی ڈالر کے عوض اس پراپرٹی کا معاہدے طے پا گیا تھا اور اس کی ملکیت شریف خاندان کے زیر انتظام چلائے جانے والے ٹرسٹ کے پاس چلی گئی تھی۔

اس کی مد میں رقم شریف خاندان نے 2006 میں سعودی عرب میں اپنی پیپر مل کی فروخت کی مدد سے حاصل کی تھی۔

اس ریفرینس میں خاص بات یہ سامنے آتی ہے کہ تمام اثاثوں کی خرید و فروخت اور لین دین میں نواز شریف کا نام خود کسی بھی حیثیت میں نہیں آیا۔

لیکن جے آئی ٹی اور نیب حکام دونوں نے اپنی تفتیش میں اس بات پر زور دیا کہ نواز شریف کے دونوں صاحبزادے، حسین اور حسن نواز کم عمر تھے اس لیے نواز شریف نے ہی انھیں کاروبار کے لیے رقم فراہم کی تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کیونکہ نواز شریف کا اپنے دورہ لندن کے دوران ایون فیلڈ اپارٹمنٹ استعمال کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ان کی ملکیت میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp