’دادا ابو کیا آپ کے دادا قبضہ گیر تھے‘


کراچی کی ایمپریس مارکیٹ میں نذرالدین قریشی کے بیٹے اور پوتے اپنی دکان پر پائپ نصب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان کے آگے والی دکان کا مالک لکڑی کے بانسوں کی مدد سے ایک جال بنا چکا ہے جس میں گوشت ٹنگا ہوا ہے۔

گوشت مارکیٹ سمیت ایمپریس مارکیٹ کی ڈھائی ہزار دکانوں اور پتھاروں کو دو ماہ قبل غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے گوشت مارکیٹ میں کچھ دکاندار دوبارہ لوٹ آئے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دکانوں کی لیز موجود ہے اور ان کی اس سلسلے میں کے ایم سی حکام سے بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آس پاس کے لوگوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی ہے اور کے ایم سی حکام کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

کئی افراد نسل در نسل اس دکان کو سنبھالتے آئے ہیں۔ نذرالدین کا کہنا ہے کہ برطانوی دور حکومت میں یہ دکان ان کے والد کو دی گئی تھی تب سے وہ ہی اس کو چلاتے ہیں۔

نذرالدین

نذرالدین کہتے ہیں کہ یہ دکان برطانوی دور حکومت میں ان کے والد کو دی گئی تھی

‘یہ دکان مسمار ہونے سے ان کے بچے اور وہ سب بیکار ہو گئے، یہاں سے چار پانچ سو روپے کماتے تھے جس سے گھر کا گذارا چل رہا تھا۔’

گوشت مارکیٹ میں دکانوں کے علاقے بجلی کے کنکشن بھی منقطع کر دیے گئے ہیں، جبکہ کھڑکیاں اور دروازے بھی غائب ہیں۔

یہاں 45 دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ نذرالدین کا کہنا ہے کہ ہر دکان پر تین چار لوگ کام کرتے تھے۔ ‘اب ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ایک ایک دکان پر بیس بیس ہزار روپے خرچہ آ رہا ہے، پھر اس کی کھڑکی دروازے بھی بنانے ہیں۔’

ایمپریس مارکیٹ کے اندر بعض پرچون، ڈرائی فروٹ فروشوں، پلاسٹک کے برتن بیچنے والوں اور سبزی فروشوں نے ٹوٹی ہوئیں دکانیں دوبارہ سجا لی ہیں۔

محمد صالحین کی پرچون کی دکان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تو ذہن میں یہ ہے کہ جنھوں نے ہماری رقم دینی ہے وہ ہمیں ہمیں واپس کر دیں اور ہم نے جن کے دینے ہیں ہم ان کو دے دیں، اس لیے جو مال گھر میں پڑا ہے اس میں سے تھوڑا تھوڑا لاکر یہاں بیچ رہے ہیں۔

آپریشن

تجاویزات کے خلاف جاری آپریشن میں متاثر ہونے والوں کی اکثریت 50 سے 60 سال کے عمر کے لوگوں کی ہے، جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ اس کاروبار پر لگایا تھا۔ ان کی جمع پونجی بھی یہ ہی ہے جو آنے والی نسل کو منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ رک گیا ہے۔

محمد صالحین بتاتے ہیں کہ ‘پہلے تو یہاں میرے بیٹے بھی آتے تھے، پوتے اور نواسے بھی آتے تھے تو حساب کتاب صبح سے شام تک چل جاتا تھا لیکن اب کوئی آتا نہیں، اب میں خود بیٹھتا ہوں صبح سے لے کر شام تک۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ اب نوکری وغیرہ ڈھونڈ لیں۔’

روزمرہ کے استعمال کی ہر چیز ایمپریس مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب تھی جہاں روزانہ گھریلو صارفین کے علاوہ ہوٹل مالکان بھی خریداری کے لیے آتے تھے، جس کی وجہ سے بڑی گہماگہمی نظر آتی تھی۔’

70 سالہ عطا محمد مرکمئی داخلی راستے پر کندھے پر چھلی لٹکائے ہر آنے والے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سامان اٹھانے کے لیے کہہ دے، وہ 40 سالوں سے مزدوری کر رہے ہیں۔ صبح سات بجے آتے ہیں اور شام سات بجے چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں انھیں ڈیڑھ دو سو روپے ملتے ہیں۔ ‘پہلے تو سات آٹھ سو روپے بن جاتے تھے لیکن مزدوری کم ہو گئی ہے کیونکہ لوگ بہت کم آتے ہیں۔’

شہر میں جاری تجاویزات کے خلاف آپریشن کی ایک وجہ عالمی بینک کا نیبرہڈ پروجیکٹ بھی ہے، جس کے تحت شہر کے قدیم علاقوں کو ان کی اصل شکل میں لانا ہے۔

اس منصوبے کا آغاز جہانگیر پارک کی بحالی سے کیا گیا تھا جب کہ دوسرے مرحلے میں ایمپریس مارکیٹ میں آپریشن کیا گیا۔ جہانگیر پارک کے دونوں اطراف کے گلیوں میں نئے اور پرانے جوتوں کی مارکیٹ واقع ہے، جن میں سے نئے جوتے کے دکاندار واپس آ گئے ہیں جو زیادہ تر بلوچستان کے پشتون ہیں۔

محمد قمر

قرض خواہ ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ پیسے دو۔ ہم کہاں سے دیں؟ یہ مال بکے گا تو ہم پیسے دیں گے: محمد قمر

ایک دکاندر محمد قمر کا کہنا ہے کہ یہ سب قرض کا مال ہے ہر دکاندار پر 15 سے 20 لاکھ روپے کا قرضہ ہے: ‘ہم مجبور ہیں۔ وہ آ کر ہمیں تنگ کر رہے ہیں کہ پیسے دو ہم نے کہا کہ ہم پیسے کہاں سے دیں؟ یہ مال بکے گا تو ہم پیسے دیں گے، یہ دکانیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اب ہم اپنا یہ پرانا مال لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صبح لاتے ہیں اور لگاتے ہیں رات کو اٹھا کر رکھ لیتے کہ بھئی کچھ نہ کچھ کمائیں تو انھیں دیں۔’

لائٹ ہاؤس استعمال شدہ کپڑوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں 400 دکانیں مسمار کی گئیں۔ یہ دکانیں نکاسیِ آب کے نالے پر تعمیر کی گئی تھیں جب صرف پانچ قدموں پر کراچی میونسپل کارپوریشن کا دفتر ہے۔

حاجی صابر کے دادا نے یہ دکان لی تھی جس میں وہ عینکیں فروخت کرتے تھے۔ جس دن ان سے ملاقات ہوئی وہ زمین میں گڑھے کھود کر بانس لگانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ ان میں یہ عینکیں ٹانگ کر فروخت کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے اور پوتے پوچھتے ہیں کہ ‘دادا ابو، کیا آپ کے دادا ابو نے قبضہ کیا تھا؟’ یہ کہنے کے ساتھ ان کی دونوں آنکھیں بھر آتی ہیں اور وہ سفید رومال نکال کر اسے صاف کرتے ہیں۔

‘میئر صاحب سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے ہمیں قبضہ گروپ کے نام سے چھٹکارا دیں۔ یہ بدنامی ہے۔’

مسمار شدہ اکثر مارکیٹیں کے ایم سی کی ملکیت ہیں جن کا ماہانہ کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔ ان کی رسیدیں دکانداروں کے پاس موجود ہیں۔ زوالوجیکل گارڈن کے ساتھ 405 دکانیں غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دی گئیں۔ یہ دکانیں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس، بیٹری اور دیگر سامان کی تھیں جبکہ دوسری منزل پر بینڈ باجے والے تھے جو پونے دو کروڑ کی آبادی میں صرف یہیں دستیاب تھے۔

آپریشن

اخلاص احمد کی بیٹری کی دکان تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘جو ہم نے اپنا بنایا تھا اب وہ کہاں بنے گا؟ اب کچھ بچا ہی نہیں ہمارے پاس۔ ہم کیا کریں آپ سوچیں کہ ہم اس وقت جا کر کہاں بیٹھیں؟ کہاں سے ہم شروع کریں؟ کہاں پہنچیں گے کب پہنچیں گے کب ہو گا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔’

کراچی میٹروپولین کارپوریشن کی جانب سے یہ آپریشن اب جاری ہے، جو برنس روڈ سے اردو بازار میں داخل ہوا چاہتا ہے لیکن شہر کی کتب مارکیٹ کے دکاندار احتجاج کر رہے ہیں جس کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مالکانہ حقوق کا جائزہ لے رہی ہے۔

کراچی کے نامور شخصیات بھی متاثرین کے حق میں سامنے آئی ہیں، جن میں شہری امور کے ماہر عارف حسن، ماہر معاشیات قیصر بنگالی اور عظمیٰ نورانی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی تجاوزات کا مسئلہ نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے فقدان کا معاملہ ہے۔ اگر یہ غیر قانونی تجاویزات تھیں تو ان کی اجازت بھی تو حکام ہی نے دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp