ریمانڈ اور اس کا طریقہ کار


ریمانڈ کے لفظی معنی واپس بھجوانا ہے۔ فوجداری مقدمات میں ملزم کو پھر حوالات بھیجنا مگر پولیس کے تشدد کی وجہ سے یہ اطلاع بڑی خطر ناک بن چکی ہے۔ جب کوئی شخص گرفتار ہوتا ہے تو پولیس اس کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنے کی پابند ہوتی ہے اور مزید عرصے کے لئے زیر حراست رکھنا مطلوب ہو تو پولیس مجسٹریٹ سے تحریری حکم حاصل کرتی ہے اس درخواست کو ریمانڈ کی درخواست کہتے ہیں۔ اگر پولیس 24 گھنٹے کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کرتی اور مزید مناسب حکم حاصل نہیں کرتی تو 24 گھنٹے سے بعد کی حراست غیر قانونی شمار ہوگی۔

عام طور پر ریمانڈ کی درخواست علاقہ مجسٹریٹ کو دی جاتی ہے تاہم ناگزیر صورت میں ریمانڈ کی درخواست کسی بھی مقامی مجسٹریٹ کو دی جا سکتی ہے۔ مجسٹریٹ جس کے روبرو کسی ملزم کو بغرض ریمانڈ پیش کیا جائے زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کا ریمانڈ دے سکتا ہے۔ ہائی کورٹ رولز میں بھی ریمانڈ کے متعلق احکامات اور ہدایات دی گئی ہیں۔ ریمانڈ کی درخواستوں میں قانون یہ ہے کہ مجسٹریٹ کو ملزم کے وکیل یا اس کے رشتہ داروں کو یہ حق دینا چاہیے کہ اگر وہ ریمانڈ کے خلاف ملزم کی طرف سے عذرات پیش کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے قواعد میں درج ہے کہ مجسٹریٹ کو لازم ہے کہ وہ ملزم کو وکیل رکھنے کا موقع دے تاکہ وہ وکیل ریمانڈ کے خلاف عذرات پیش کر سکے۔

مجسٹریٹ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ آیا ملزم کا پولیس کے قبضہ میں دیا جانا ضروری ہے یا نہیں۔ اگر مجسٹریٹ محسوس کرے کہ ملزم کو پولیس کی حراست میں مزید رکھنا ضروری نہیں ہے تو وہ ریمانڈ کا حکم صادر کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ وہ ملزم جس کے خلاف مقدمہ زیر تجویز ہو ریمانڈ پر صرف پولیس اسٹیشن میں رکھا جا سکتا ہے کسی اور جگہ نہیں ورنہ یہ اقدام غیر قانونی ہوگا۔ ریمانڈ کے لئے ضروری ہے کہ ملزم کو مجسٹریٹ کے روبرو حاضر کیا جائے۔ مجسٹریٹ کا خود مقام نظر بندی تک جانا غیر قانونی ہے۔ ریمانڈ سے متعلق تفصیلات جاننے کے لئے ضابطہ فوجداری کی دفعات 61، 167 اور 344 کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ دفعہ 62 اور دفعہ 173 کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔

ریمانڈ دو طرح کا ہوتا ہے۔

1۔ جسمانی ریمانڈ (Physical Remand)

جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ ہے کہ گرفتار شدہ ملزم تھانہ میں زیر حراست رہتا ہے۔ مجسٹریٹ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ پولیس کو بر آمدگی وغیرہ یا کسی اور مقصد کے لئے ملزم کے جسم کی ضرورت ہے تو وہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ وقتاً فوقتاً پولیس افسران کو دیتا رہے گا۔ لیکن اس ریمانڈ کی مجموعی تعداد پندرہ دن سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس جسمانی ریمانڈ کی وجہ بھی لکھی جائے گی۔ ریمانڈ دینے لا طریقہ یہ ہوگا کہ ایک تو جسمانی ریمانڈ زیادہ دنوں کے لئے نہ دیا جائے گا اور شاید ہی کبھی پندرہ دن کا ہوا ہو۔

اس جسمانی ریمانڈ کا مطلب بھی پولیس کی چھترول سمجھا جاتا ہے حالانکہ قانون کا یہ منشا ہر گز نہ ہے۔ مگر تفتیش کا مطلب مار پٹائی کے سوا ہمارے ملک میں اور کچھ نہیں ہوتا۔ پولیس جس طرح دوران ریمانڈ ملزم کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ مہذب قوموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس رویے کی بناء پر پولیس کو خوف اور نفرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گرفتار شدہ شخص کے دوست، رشتہ دار صرف اس بات کے لئے پولیس کو بھاری رقوم دیتے ہیں کہ وہ جسمانی ریمانڈ نہ لے بلکہ جوڈیشل ریمانڈ لے اور مدعی پارٹی پولیس کو بھاری رقم اس لیے دیتی ہے کہ وہ دوران ریمانڈ ملزم پر جسمانی تشدد کرے۔ گرفتار ملزم پر اگر دوران حراست تشدد کیا گیا ہے تو علاقہ مجسٹریٹ سے میڈیکل کرانے کا حکم حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ پولیس کی طرف سے کیا گیا تشدد ثابت ہونے پر پولیس کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

2۔ جوڈیشل ریمانڈ (Judicial Remand)

جوڈیشل ریمانڈ کا مطلب ملزم کو جیل بھجوانا ہوتا ہے۔ اگر پولیس افسر استدعا کرے کہ تفتیش مقدمہ مکمل ہے یا مزید تفتیش کی ضرورت نہ ہے تو مجسٹریٹ ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوا سکتا ہے۔

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر تفتیشی افست مزید ریمانڈ جسمانی کی استدعا کرے تو مجسٹریٹ مزید ریمانڈ جسمانی کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوا سکتا ہے۔ اس کے لئے مجسٹریٹ چند امور کو مد نظر رکھے گا۔

1۔ مجسٹریٹ اگر مناسب سمجھے کہ تفتیش مقدمہ مکمل ہے۔
2۔ مجسٹریٹ اگر مناسب سمجھے کہ مزید تفتیش کی غرض سے جسمانی ریمانڈ دینا مناسب نہیں ہے۔
3۔ ملزم کے خلاف بظاہر کوئی مقدمہ نہ بنتا ہو۔
4۔ تمام بر آمدگیاں مکمل ہو چکی ہوں۔

قانونی تقاضہ یہ ہے کہ ملزم کو تھانے کی عمارت میں رکھا جائے۔ کئی تھانیدار تشدد کرنے کے لئے پرائیویٹ مکان حاصل کرکے ملزموں کو ایسے پرائیویٹ مکانوں میں رکھتے ہیں جو سراسر غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو بھی جن کی گرفتاری ریکارڈ میں موجود نہیں ہوتی انہیں بھی ایسے ٹارچر سیلز میں رکھا جاتا ہے۔ لہذا ایسے مکانوں پر چھاپہ ڈلواکر تھانیدار کے خلاف پرچہ درج کروایا جا سکتا ہے۔ سی آئی اے کا دفتر تھانہ نہیں ہوتا، اسی طرح کرائم برانچ کا دفتر بھی تھانہ نہیں ہوتا اس لیے ملزمان کو سی آئی اے کے دفتر میں رکھنا خلاف قانون سمجھا جائے گا۔

منطقی طور پر یہ بات سمجھ لینی آسان ہے کہ جب قانون نے ملزم کو یہ حق دیا ہے کہ وہ گرفتاری کے بعد اپنے گھر سے بستر اور کپڑے منگوا سکتا ہے، دوست احباب اور وکلاء سے ملا قات کر سکتا ہے تو یہ سب قانونی حقوق ایسی حالت میں کیونکر پورے ہوں گے جب ملزم کو کسی خفیہ مقام پر پابند رکھا جائے۔

مجسٹریٹ کا فرض

ریمانڈ منظور کرتے وقت مجسٹریٹ کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات کی پابندی لازمی ہے۔
1۔ ریمانڈ کا حکم کھلی عدالت میں دیا جائے۔

2۔ ریمانڈ دینے سے پہلے مجسٹریٹ پولیس کی لکھی ہوئی ضمنیوں کی پڑتال کرے اور اس بات کا اطمینان کرے کہ ملزم کی گرفتاری کے لئے معقول اور ٹھوس وجوہات ضمنی میں موجود ہیں۔

3۔ ملزم یا اس کے وکیل یا دوست رشتہ دار وں کے اعتراضات کی سماعت کرے، ان اعتراضات کو لکھے اور ان وجوہات کو بھی لکھے جن کی بناء پر وہ جسمانی ریمانڈ لینا قانوناً ضروری سمجھتا ہے۔

4۔ مجسٹریٹ کا فرض ہے کہ وہ ملزم سے پوچھے کہ آیا اس پر تشدد تو نہیں کیا گیا اور اگر وہ تشدد کی شکایت کرے تو اس کا ڈاکٹری ملاحظہ / معائنہ کروائے۔ یہ ڈاکٹری معائنہ میڈیکل بورڈ کرے گا۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ملزم کو گرفتار ہوتے ہی ضمانت کی درخواست دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اس لیے لوگوں میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریمانڈ کی مدت جب تک ختم نہ ہو ضمانت نہیں ہو سکتی۔ سادہ سی بات ہے کہ جب ملزم گرفتاری سے پہلے بھی قبل از گرفتاری ضمانت کروانے کا حق رکھتا ہے تو گرفتاری کے بعد وہ حق کیونکر چھینا جا سکتا ہے۔ تمام قانونی تقاضے پورے کرنا عدالت کا، وکلاء کا اور پولیس کا فرض ہے تاکہ انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے اور معاشرہ صحیح خطوط پر استوار ہو سکے۔

خواتین کا ریمانڈ اور تفتیش

1۔ گرفتار خواتین کی تفتیش ملزمہ کے دو مرد اور ایک خاتون رشتہ داروں کے سامنے اورموجودگی میں کی جائے گی یا معززین علاقہ کے روبرو تفتیش کی جائے گی۔

2۔ خواتین کی گرفتاری کے بارے میں سپیشل رپورٹ سرخ لفافہ میں افسران بالا کو بھجوائی جائے گی۔
3۔ اگر ریمانڈ جسمانی کے لئے خاتون ملزمہ کو عدالت میں پیش کرنا مقصود ہو تو گزٹیڈ افسر پیش کرنے کا پا بند ہے۔

4۔ اگر خاتون ملزمہ کو حراست میں رکھنا مقصود ہے تو زنانہ حوالات میں رکھا جائے گا تاکہ حیاء داری اور پردا داری کا خیال رکھا جائے۔

5۔ اگر عورت ملزمہ کو موقع کی نشاندہی یا شناخت کے لئے کسی گاؤں میں لے جانا ہو تو اس عورت کے رشتہ دار یا نمبر دار یا معزز ہمسایہ اس عورت کے ساتھ جائے گا۔
6۔ زنانہ پولیس کی موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya