امریکی دباؤ اور ملکی اسٹیلبشمنٹ کی کشمکش


اس وقت ملکی حالات بڑی کشمکش کا شکار ہیں جس کی اہم وجوہات امریکی اسٹبلشمینٹ اور ہماری ملکی اسٹلبشمنٹ کے درمیان معاملات طئے نہیں پارہے ہیں، جس کی اہم وجہ چائنہ کا سی پیک منصوبہ ہے۔ آپ اگر غور کریں تو سی پیک منصوبہ پر زیادہ پیش رفت پچھلی نواز دور حکومت میں ہوئی، حکومتی دباؤ کی وجہ سے اس منصوبے میں پاکستانی مقتدر حلقے نے بھی کافی دلچسپی لی جس کی وجہ سی پیک منصوبے کے ذریعے حاصل کردہ ٹھیکے ہیں جن میں زیادہ تر شیئرز طاقتور ادارے کی زیر قیادت کمپنیز کے ہیں۔

امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی پچھلے دور حکومت سے کافی ناخوشگوار رہے ہیں، جس کی وجہ پاکستان میں چائنہ کا بڑھتا اثر رسوخ ہے۔ ان سب معاملات کی پیش نظر پاکستانی اسٹبلشمینٹ میں امریکی لابی نے پہلے ن لیگ حکومت جس نے اپنا زیادہ جھکاؤ چائنہ کی طرف کردیا تھا اس کا سروناش کیا انہیں اپنی حکومت کے دوران ہی بدترین احتساب کا سامنا کرنا پڑا اور الیکشن میں شکست سے دوچار کروایا۔ مستقبل کو دیکھتے ہوئے امریکی لابی نے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لانے کے لئے پہلے سے تیار کردہ تبدیلی ویژن کو حکومت دلا دی ہے۔

آپ نے دیکھا ہے کہ تبدیلی حکومت کے آتے ہی راہداری سی پیک منصوبے پر سوالات نے جنم لیا ہے حکومتی وزرا کے کانٹوورشل بیانات بھی اس گیم کا حصہ ہیں۔ بہت سارے منصوبے تعطل کا شکار ہیں سکر حیدرآباد موٹروے منصوبہ بھی فی الحال معطل کردیا گیا ہے جو ون بیلٹ روڈ کا اہم حصہ تھا۔ سیاسی اقتدار کی منتقلی کے باعث چین کی جانب سے منظوری میں تاخیر اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ”پی ایس ڈی پی“ کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی سے پاک۔

چین اقتصادی راہداری سی پیک کے مغربی روٹ کی تکیمل مشکلات سے دوچار ہے۔ مغربی روٹ کے تحت پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے مختص 25 ارب روپے جاری نہیں کیے جس وجہ سے ڈیرہ اسمٰعیل خان موٹر وے منصوبے پر کام بند ہے اور ساتھ ہی مغربی روٹ پر ڈیرہ اسمٰعیل خان سے زوب منصوبہ بھی منظوری کا منتظر ہے۔ بعض منصوبوں پر بیجنگ کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہمیں ان منصوبوں کی فوری ضرورت نہیں ہے جن میں رحیم یار خان میں بننے والا 1320 میگاواٹ توانائی کا منصوبہ بھی ختم کردیا گیا۔

دوسری طرف چینی حکام کے اعتراضات کے باوجود پاکستان کی نئی حکومت گوادر میں دنیا کی تیسری بڑی آئل ریفائنری منصوبے کے ذریعے امریکی اتحادی سعودی عرب کو سی پیک میں شریک کرنے جارہی ہے جس کہ خطے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے جس کو اب چینی حکام نے سنجیدگی سے برداشت کرتے ہوئے اوپری دل سے فل الوقت گوادر میں سعودی عرب کو قبول کررہی ہے، چائنہ نے گہری سوچ رکھتے ہوئے قبول کرلیا ہے کیونکہ ان کے اس خطے سے اپنے وسیع تر مفادات جڑے ہیں۔

چینی حکومت خاموشی سے سب کھیل دیکھ رہی ہے۔ چائنیز کے ساتھ پاکستان میں خارجہ امور پر پہلے جیسا برتاؤ نہیں کیا جارہا، چینی سفیر مسٹر یاونگ نے لاہور چیمبر آف کامرس سے خطاب کے دوران دبے الفاظ میں بڑھتی ٹیکس شرح اور پالیسوں پر شکوہ کیا ہے کہ ”پاکستان میں اچھی تجارتی پالیسیاں، ٹیکسوں کی کم شرح، تاجروں کے لیے ضروری مراعات اور بہترین کاروباری ماحول بڑے پیمانے پر چین کے سرمایہ کاروں کو اپنی جانب متوجہ کرسکتے ہیں“۔

دو ماہ پہلے وزیراعظم عمران خان دورہ چین پر گئے تھے جہاں چینی حکام نے سی پیک منصوبے کی مکمل گارنٹی کے بدلے امداد دینے کا واعدہ کیا جس پر تبدیلی ویژن والے تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں حکومت چلانے کے لئے انہیں امداد کی ضرورت ہے اگر سی پیک کی گارنٹی پر حکومت چلاتے ہیں تو تبدیلی ویژن کو لانے والے اس کو چکنا چور کردیں گے۔ اس سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دورہ چین پر گئے تھے اصل معاملات میں ان سے بھی منصوبے کی گارنٹی مانگی گئی ہے جس کا ردعمل فی الحال واضح نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان آرمی پر بھی امریکی دباؤ بڑھتا جارہا ہے امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد پہلے ہی معطل کردی تھی اب ان نان نیٹو اتحادی کی حیثیت بھی ختم کرنے جارہے ہیں۔

برحال یہ واضح ہے امریکا کی طرف سے بڑھتا دباؤ پاکستان کی ملکی معیشت کو رگڑ رہا ہے جس کا اثر حکومت کو دن بدن کمزور کرتا جارہا ہے، پاکستان میں موجود اشٹبلشمنٹ کی وہ لابی جو سی پیک منصوبے کو جاری رکھ کر اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہتی ہے وہ آج بھی کوشش کررہے ہیں کہ تبدیلی ویژن کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے لیکن چونکہ چینی لابی، امریکی لابی کے آگے کمزور پڑ رہی ہے جن کو امریکا نے دہائیوں سے پالا ہے۔ آنے والے ماہ انتہائی اہم ہیں جس میں اس حکومت کے مستقبل کا فیصلہ بھی ہے، دیکھتے ہیں ہم کس کی کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور ہمیں کون سے جزیرے پر اتارا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).