جانور راج۔ جنگ کے بعد


سب انسان دفعان ہوگئے ماسوائے ایک کے۔ پیچھے، صحن میں، باکسر اپنے کھر سے، لید اٹھانے والے لڑکے کو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو منہ کے بل، کیچڑ میں گرا پڑا تھا۔ لونڈا نہ ہلا۔
” یہ مر چکا ہے۔ “ باکسر نے تاسف سے کہا۔ ”میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ میں بھول گیا تھا کہ میرے نعل ٹھکے ہوئے ہیں۔ کون مانے گا کہ میں نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا؟ “

” جذباتیت نہیں کامریڈ! “ سنو بال چلایا جس کے زخموں سے ابھی تک خون ٹپک رہا تھا۔ ”جنگ، جنگ ہوتی ہے، واحد اچھا انسان، ایک مردہ انسان ہے۔ “
” میں کسی کی جان نہیں لینا چاہتا، حد یہ کہ ایک انسان کی جان بھی۔ “ باکسر نے آنسو بھری آنکھوں سے دہرایا۔
” مولی کہاں ہے؟ “ کسی نے پوچھا۔

مولی اصل میں لاپتہ تھی۔ ایک لمحے کو بڑی گھبراہٹ پھیلی ؛ یہ ڈر ہوا کہ انسانوں نے اسے کسی طرح نقصان نہ پہنچایا ہو یا اپنے ساتھ بھگا نہ لے گئے ہوں۔ البتہ آخر میں وہ اپنے تھان پہ کھرلی میں بھوسے میں منہ گھسائے، چھپی ہوئی ملی۔ وہ بندوقیں چلتے ہی بگٹٹ ہوئی۔ اور جب باقی اس کی خبر لے کے لوٹے تو پتا چلا کہ لید اٹھانے والا لونڈا، جو فقط بے ہوش تھا، ہوش میں آکر رفو چکر ہو چکا تھا۔

جانور اب ایک سر خوشی کے عالم میں دوبارہ اکٹھے ہوئے۔ ہر ایک حلق کے بل اپنے جنگی کارنامے گنوا رہا تھا۔ فوری طور پہ فتح کی ایک غیر رسمی خوشی منائی گئی۔ جھنڈا لہرایا گیا اور وحوشِ انگلستان کا ترانہ کئی بار گایا گیا پھر ماری جانے والی بھیڑ کی سادگی سے تدفین کی گئی، اس کی قبر پہ ببول کا ایک پودا لگایا گیا۔ سنو بال نے قبر کے سرہانے ایک مختصر تقریر کی، جس میں تمام جانوروں کے لئے اس بات کی ضرورت پہ زور دیا گیا کہ وہ مادرِ وطن یعنی جانوروں کے باڑے کے لئے بوقتِ ضرورت جان دینے کو تیار رہیں۔

جانوروں نے مشترکہ طور پہ فوجی اعزاز، ”نشان الوحوش اول“ جاری کیا جو اسی وقت، وہیں پہ سنو بال اور باکسر کو دیا گیا۔ یہ ایک پیتل کا تمغہ تھا (یہ حقیقت میں گھوڑوں کے ساز پہ لگانے والے پیتل کے پرانے ٹھیپے تھے جو ساز ورخت رکھنے کے کمرے میں ملے تھے ) جو اتوار اور چھٹی کے دنوں میں پہننے کو تھا۔ ایک ”نشان الوحوش دوئم“ بھی تھا جس سے مرنے والی بھیڑ کو بعد از مرگ نوازا گیا۔

اس پہ بڑی بحث اٹھی کہ جنگ کو کیا کہنا چاہیے۔ آ خر کار اسے، ’جنگِ گاؤ تھان‘ کا نام دیا گیا چونکہ یہ ہی وہ جگہ تھی جہاں سے شب خون مارا گیا۔ جانی صاحب کی بندوق کیچڑ میں پڑی ہوئی ملی اور یہ معلوم ہوا کہ رہائشی عمارت میں کارتوسوں کی کھیپ موجود ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ، بندوق کو جھنڈے کے چبوترے پہ توپ کے طور پہ نصب کیا جائے اور سال میں دو بار داغا جائے ایک بار بارہ اکتوبر کو ’جنگِ گاؤتھان‘ کی سالگرہ پہ اور ایک بار ’موسمِ گرما کے منج کے روز‘ انقلاب کی سالگرہ پہ۔

جیسے جیسے سردیاں آ رہی تھیں، مولی مصیبت سی بنتی جا رہی تھی۔ وہ روز سویرے کام پہ دیر سے آتی اور بہانہ یہ تراشتی کہ اس کی آنکھ نہیں کھلی تھی اور عجیب وغریب دردوں کی شکایت کرتی تھی، گو اسے بھوک خوب کھل کے لگتی تھی۔ اونگے بونگے بہانے بنا کر پانی کی ہودی کی طرف دوڑ جاتی تھی، جہاں وہ احمقانہ انداز میں پانی میں اپنے عکس کو تکتی رہتی تھی۔ مگر، کچھ بہت سنجیدہ نوعیت کی افواہیں بھی اڑ رہی تھیں۔ ایک دن جب کہ مولی، احاطے میں بے فکری سے اپنی لمبی دم لہراتی، گھاس کا ایک تیلا چباتی مٹکتی پھر رہی تھی، کلوور اس کے ساتھ چلنے لگی۔

’ مولی‘ اس نے کہا۔ ”مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے۔ آج صبح میں نے تمہیں اس باڑ کے پار جھانکتے ہوئے پایا جو کہ، جانوروں کے باڑے کو ’بوہڑ والا‘ سے الگ کرتی ہے۔ مسٹر اللہ دتے کا ایک گماشتہ، باڑ کے پار کھڑا تھا۔ اور گو کہ میں بہت دور تھی مگر مجھے یقین ہے کہ میں نے یہ دیکھا۔ وہ تم سے بات کر رہا تھا اور تم نے اسے اپنی تھوتھنی سہلانے دی تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے مولی؟ “

” اس نے نہیں کیا! میں تھی ہی نہیں! یہ سچ ہے ہی نہیں! “ مولی نے کودنا، کھر رگڑنا اور بلکنا شروع کیا۔
”مولی! میری آنکھوں میں دیکھ کے بات کرو۔ کیا تم مجھے حلفیہ کہتی ہو کہ وہ آدمی تمہاری ناک نہیں سہلا رہا تھا؟ “
’ یہ سچ نہیں ہے! ‘ مولی نے دہرایامگر وہ کلوور کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہ دیکھ سکی اور اگلے ہی لمحے وہ سر پہ پاؤں رکھ کے کھیتوں میں دگڑ دگڑ دوڑ گئی۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج! انسانوں سے پہلی جنگاینمل فارم! پون چکی کا منصوبہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).