مسئلہ کیا ہے؟


آپ سے ایک سیدھا سادہ سوال ہے۔ کیا آپ کا کبھی گھر میں، یا دفتر میں، یا کسی ہمسائے یا بزنس پارٹنر کے ساتھ کوئی جھگڑا ہوا ہے؟ اگر آپ فرشتہ نہیں ہیں اور باقی لوگوں کی طرح گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان ہیں تو میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ آپ کا یک لفظی جواب صرف ”ہاں“ پر مشتمل ہو گا۔

لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جناب واعظ

ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں

انسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میں انسانی خوبیاں اور خامیاں بھی ہوں گی۔ آپ کو کبھی کبھار، یا اکثر، غصہ بھی آتا ہو گا۔ آپ روٹھتے بھی ہوتے ہوں گے۔ اور بعض مرتبہ فرسٹریشن میں ایسی باتیں بھی کر بیٹھتے ہوں گے جن پر بعد میں پشیمانی اٹھانی پڑتی ہو گی۔

یہ مضمون اس سیریز کی پہلی قسط ہے جس میں ہم ذاتی، پروفیشنل، سیاسی، بزنس اور معاشرتی تنازعات کے کامیاب حل کے بارے میں بات کریں گے۔ اس سیریز کا مقصد یہ نہیں کہ آپ راتوں رات انسان کامل بن جائیں، آپ کے سب مسائل حل ہو جائیں اور آپ کی زندگی سے تمام جھگڑے، لڑایئاں اور تنازعات یکسرناپید ہو جائیں۔

ان مضامین کا مقصد یہ ہے کہ آپ تنازعات کی نوعیت کو سمجھ سکیں اور ان جھگڑوں سے نمٹنے کی کوششوں میں اپنے حالات مزید خراب نہ کریں۔ خوداپنے رد عمل کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیں۔ اور باقی دنیا تو خیر آپ کو جو نقصان پہنچائے گی سو پہنچائے گی، کم اس کم آپ اپنے آپ کو خود مزیدنقصان نہ پہنچائیں۔

تنازعات کے بارے میں سب سے پہلی بات تو یہ گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ جہاں دو انسان ہوں گے وہاں دو دماغ بھی ہوں گے۔ جہاں دو دماغ ہوں گے وہاں دو سوچیں بھی ہوں گی۔ جہاں دو سوچیں ہوں گی وہاں اختلاف بھی ہوگا۔ اور جہاں اختلاف ہوگا وہاں تنازعہ ضرورہو گا جو کوئی بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

اتنی بات تو طے ہے کہ تنازعات سے مفر نہیں۔ اب اگر یہ ایک مجبوری ہے ہی تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا آپ بس

 ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کے مصداق جو ہونا ہے ہونے دیں، یا پھر آپ اپنے دفاع میں اور اپنی فلاح و بہود کی خاطر جو کچھ آپ کے اختیار میں ہے وہ کچھ تو کر سکیں۔ مجبوری کو مقدر سمجھ لینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

مضامین کی اس سیریز میں آپ مقدمہ بازی اور دوسرے حریفانہ طریق کار کی بجائے مسائل کے متبادل حل کے ایسے اقدامات کے بارے میں کچھ جان پائیں گے جن سے واقفیت کے بعد آپ اپنے حالات کے دگر گوں ہونے کی اور بہت سی وجوہات تو بتا سکیں گے کہ آپ نے صحیح فیصلہ کیوں نہیں کیا، لیکن آ پ یہ نہیں کہ سکیں گے کہ ”مجھے صحیح حل معلوم نہیں تھا“۔ آپ کو بے عملی کے اس بہانے سے محروم کرنے کی معزرت میں ابھی سے کر لیتا ہوں۔ تاکہ بار بار معافیاں نہ مانگنی پڑیں۔ اس تحریر کے حوالے سے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایسے ساتھ لے کر چلوں کہ آپ کو محسوس ہو جیسے مضامین کا یہ سلسلہ صرف اور صرف آپ ہی کے جھگڑے کے حل کے لئے لکھا گیا ہے۔

یہ کہنا کہ حالات یا ماحول کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کر سکتے صرف ایک بہانہ ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ آپ وہ تمام چیزیں نہیں کر سکتے جو آپ چاہتے ہیں لیکن آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ آپ کے اختیار میں کیا کچھ ہے۔ ان سیریز میں میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ جب بھی آپ یہ سمجھیں کہ اب آپ کے تنازعے کے حل کے سب دروازے بند ہو چکے ہیں تو بھی آپ کے پاس بہت سار ی آپشنز ہیں جن کا چناؤ آپ کے اختیار میں ہے۔ اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو حالات اور زندگی کے بدلتے تقاضوں کے باعث اور درواز ے کھل جاتے ہیں۔

اسی اختیار کا دوسرا نام تنازعات کا متبادل حل ہے۔ جس کو الٹرنیٹیو ڈسپیوٹ ریزولوشن یا اے۔ ڈی۔ آر۔ کہا جاتا ہے۔ (حال ہی میں کینیڈا اور امریکہ میں میری ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام پریکٹیکل گائڈ فار اے۔ ڈی۔ آرہے۔ جس میں تنازعات کے حل کے سات اصول بیان کیے گئے ہیں ) ۔

اے۔ ڈی۔ آر۔ کا طریق کار آپ کو بتاتا ہے کہ روایتی طریقوں سے مسائل کا حل ڈھونڈنا آپ کی آپشنز کو محدود کر دیتا ہے۔ آپ مجبور ہو جاتے ہیں کہ یا تو مقدمہ بازی اور جارحانہ وسیلوں سے اپنے مسائل حل کریں اور یا پھر خودنقصان اٹھائیں اور اپنے مد مقابل سے شکست قبول کر لیں۔

اختیا ر کے بارے میں ایک بنیادی اصول یاد رکھیں کہ اختیار دیا نہیں جاتا، لیا جاتاہے۔ کم از کم اے۔ ڈی۔ آر کے معاملے میں مختاری کی تہمت ناحق نہیں اور نہ ہی اس سے آپ کی عبث بدنامی منظور ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے کہ آپ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر یہ اختیار استعمال کرنا چاہتے ہیں یا صرف مجبوری کو بہانہ بنا کر اپنی بے عملی کو بجا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

ان مضامین میں ہم کچھ ایسے پریکٹیکل اور عملی طریقے سیکھ سکیں گے جن سے آپ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے محدود ہی سہی، لیکن جتنی بھی تدابیرآپ کے اختیار میں ہیں، آپ اپنے تنازعے کے حل کے لئے بروئے کار لاسکتے ہیں اور تنازعے کا ایسا حل ڈھونڈھ سکتے ہیں جو صرف آپ ہی کے لئے نہیں، بلکہ دوسرے فریقین کے لئے بھی مناسب ہو۔

آج کی قسط میں ہم صرف اس بات پر گفتگو کرنا چاہیں گے کہ آپ کو جن تنازعات کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لئے وہ کون سے عملی اقدام ہیں جو اٹھائے جائیں تو آپ کا مسئلہ ایسے حل ہو سکتا ہے جس میں

ع۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

آئندہ اقساط میں ہم تنازعے کی نوعیت، آپ کی زندگی میں تنازعے کا رول، ثالثی اور دوسری آپشنز، چھوٹے اور بڑے تنازعات کی قیمت جو آپ گھر، دفتر، معاشرے اور سیاست میں ادا کرتے ہیں، ان سب کے بارے میں بات کریں گے۔ لیکن آج کی قسط میں کم اس کم دو باتیں ضرور شامل کرنا چاہیں گے جن پر تفصیل سے آنے والے مضامین میں بات ہو گی۔

پہلی بات تو یہ کہ آج کا مضمون پڑھنے کے فورا بعد آپ کاغذ قلم لیں، یا اپنے کمپیوٹر پر ایک مختصر سا نوٹ لکھیں۔ اس نوٹ میں جو بھی کوئی بڑا تنازعہ جس میں آپ آج کل الجھے ہوئے ہیں، یا جو ماضی قریب میں آپ کو پیش آیا ہے، چند سطروں میں اس کی نوعیت لکھئے۔ یہ تناعہ کس سے ہے؟ اس کی جڑ کیا ہے، ؟ یہ اب کس سٹیج پر ہے؟ اس کے فریقین کون ہیں۔ ؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور آپ کیا چاہتے ہیں؟

یہ تحریر آپ صیغہ راز میں رکھیں اورکسی کو نہ دکھائیں۔ اپنے اس چند فقروں کے اعتماد میں کسی کو شریک نہ کریں۔ یہ صرف آپ کے جاننے کی بات ہے۔

ع۔ یہ گھر کی بات ہے گھر میں رہے تو اچھا ہے

دوسری بات یہ ہے کہ جیسے جیسے اگلی قسطوں میں ہم تنازعات کے حل کے بارے میں بات کریں گے، میں آپ کی توجہ ان سطور کی طرف دلاؤں گا جو آپ نے آج تحریر کی ہیں اور ہر اہم موڑ پر آپ سے پوچھوں گا کہ آپ جو کچھ پڑھ رہے ہیں کیا اس کا اطلاق آپ کے جھگڑے، مسئلے اور سچوئیشن پر ہوتا ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو آپ اس تکنیک کی مدد سے اپنے مسئلے کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟

چونکہ اس اطلاق کے فیصلے میں آپ کے علاوہ اور کوئی فی الحال شامل نہیں ہے اس لئے آپ بلا شرکت غیرے بے خوف ہو کر، مکمل اعتماد سے، صحیح صورت حال ایمانداری اور پوری سچائی سے بیان کر سکتے ہیں۔ اس سٹیج پر دوسرے فریقین کو، یا اپنے نمائندے یا وکیل کو اعتماد میں لینے یا نہ لینے کا فیصلہ بعد میں ہو سکتا ہے۔

ان دو ابتدائی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ اپنے اختلاف یا تنازعے کر طرف پلٹیئے اور ایک ایک کر کے ان سات اقدامات کا اپنی سچوئیشن پر اطلاق کیجئے جو ہم یکے بادیگرے اگلی قسطوں میں تفصیل سے بیان کریں گے۔ یہاں صر ف ان سات اقدامات کے عنوان آپ کو بتا دیتا ہوں۔ تفصیل ایک ایک کر کے بعد میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

پہلا قدم ہے کنسیلئیٹ کرنا۔ اس کا مطلب صلح صفائی یا ثالثی نہیں۔ نہ ہی یہ کہ جو کچھ آپ کے مخالف کہ رہے ہیں آ ٌپ اس سے اتفاق کریں۔ بلکہ اس سے مرادصرف یہ ہے کہ حالات کی صحیح نوعیت سے اپنے آپ کو آگاہ کریں اور حقیقت کا اعتراف صرف اپنے آپ سے اور اپنے لئے کر لیں۔ مخالف فریق کو اپنے اس اعتراف کے بارے میں اس موقع پر بتانے کی ضرورت نہیں۔

دوسرا قدم ہے کمٹمنٹ۔ اگر آپ کمٹڈ نہیں ہیں اور اپنے مسئلے کے حل کی تلاش میں خود ہی ڈانوا ڈول ہو رہے ہیں۔ اور یقین سے نہیں کہ سکتے آپ حل کے لئے مکمل طور پر مخلص ہیں اور جو عمل اس کے لئے چاہیے وہ کرنے کے لئے تیار ہیں، تو پھر بہتر ہو گا کہ آپ اس مسئلے کو بھول جائیں اور اپنا اور دوسروں کا، خاص طور پر ادراروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ عدالتوں میں ویسے ہی زیر التوا مقدمات کی بھر مار ہے، انہیں آپ کا مزید ایک اور جھگڑا نہیں چاہیے۔

تیسرا قدم ہے کمپیشنیٹ ہونا۔ اس سے مرادیہ ہے کہ آپ دوسروں سے اسی انسان دوستی، رحم دلی، سخاوت اور نرم دلی کا برتاؤ کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ آپ سے کریں۔ اگر آپ کمپیشنیٹ ہو کر کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو آدھے سے زیادہ مسئلہ تو آپ کی نیک نیتی ہی سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن کمپیشنیٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزوری یا مجبوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی پوزیشن پر اعتماد ہے لیکن آپ وسیع القلبی سے اپنے حریف کے لئے بھی وہی انصاف چاہتے ہیں جس کے آپ خود متمنی ہیں۔ اپنے ضمیر کو اپنا قائد بنانا کمپیشنیٹ ہونے کا ایسا ثبوت ہے جس میں غلط فیصلے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔

چوتھا قدم کمیونیکیشن ہے۔ ایک فقرے میں کہا جا سکتا ہے کہ کیا جو پیغام آپ گوش گزار کرنا چاہتے ہیں وہی دوسری جانب موصول ہوا ہے یا کچھ اور؟ اگر آپ اپنا عندیہ ہی نہیں بتا سکتے تو مسئلہ آپ کے مفاد میں حل ہونے کے مواقع بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابرہوں گے۔

پانچواں قدم کنسنٹریشن ہے۔ یعنی مکمل فوکس۔ اگر آپ کی پوری توجہ اپنے مسئلے کے حل پر نہیں اور آپ غیر متعلقہ باتوں پر توجہ کے انتشار کا شکارہیں تو دوسرے فریق اس سے پورا فائدہ اٹھا کر آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

چھٹا قدم کمپرومائز یعنی سمجھوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی یہ خواہش کہ آپ کو سو فیصدی وہ مل جائے جو آپ چاہتے ہیں بالکل بے جا اور نا مناسب ہے۔ ہر جھگڑے کے حل کے لئے کچھ لو اور کچھ دو کا اصول لازمی ہے۔ ساری جاتی دیکھئے آدھی دیجئے بانٹ کی کہاوت میں انتہائی دانائی پوشیدہ ہے۔

ساتواں اور آخری قدم کلوژر ہے۔ یعنی تمت بالخیر۔ کسی مسئلے، شکایت یا جھگڑے کا ازالہ ہو جائے تو اس کے اختتام کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ بار بار وہی حل شدہ مسئلہ اٹھانا غلط ہے۔ اسے زندگی کا روگ بنانے کی بجائے ماضی کا حصہ بنا کر اپنی زندگی کا اگلا قدم اٹھانا چایئے۔ کسی جھگڑے کو ایسی فوقیت نہیں دینی چاہیے کہ روشن زندگی کے امکانات اس جھگڑے کی دہلیز پر قربان ہو جایئں۔ اگر جو ہونا تھا ہو گیا ہے اور آپ نے ایک قیمت ادا کر دی ہے تو اپنی باقی زندگی اس جھگڑے کی نذرنہ کریں۔

یہ صر ف ان سات اقدام کے عنوانات تھے۔ ان ساتوں عنوانات پر اگلی قسطوں میں تفصیل سے بات ہو گی تاکہ آپ ہر اس طریق عمل سے آگاہ ہوجائیں جس کا اطلاق آپ اپنے اس مسئلے کے حل پر کر سکیں جس کو ابھی آپ کاغذ قلم لے کر لکھیں گے۔

اگلی قسطوں میں ہم عملی طور پر مسائل اور تنازعات کے حل کرنے کی ایسی تدابیر کے بارے میں بات کریں گے جن میں حریف حلیف بن کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں کم سے کم قیمت، وقت اور مشقت لگے اور جوحالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے زیادہ سے زیادہ مفاد میں بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).