نمازِ جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔۔۔


 ”بابا جی“ نام کی چیز متعارف کروانے کی ضرورت تب پیش آئی جب قیامِ پاکستان کے چند برس بعد گورنرجنرل غلام محمد نے دستورساز اسمبلی تحلیل کر کے وزیراعظم کو رخصت کر دیا۔ مولوی تمیزالدین شکایت لے کر ”بابا جی“ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لگ تو یوں رہا تھا کہ گورنر جنرل کی خیر نہیں۔ مگر وہ تو بابا جی کے”جدی پشتی“ مرید تھے، اس لیے بابا جی نے اُن کے اِس کام کو عین حلال قرار دے دیا۔

خان ایوب خان صاحب کے دورِ حکومت میں سندھ کے کسان لیڈر حیدر بخش جتوئی نے باباجی کے ایک فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک پمفلٹ لکھا ”جسٹس آف چیف جسٹس“ تو اس ”گستاخی“ پر حیدر بخش کو تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ اسی دوران ملک کے ”وڈے چودھری “ نے الیکشن میں قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا تو لوگ انصاف کی بھیک مانگنے”بابا جی“ کی چوکھٹ پر پہنچے مگر ”بابا جی استراحت فرما رہے تھے۔

ملک کا ”وڈا چودھری“ تبدیل ہوتا ہے اور اس چودھری کو پاکستان کی تاریخ کا محمد شاہ رنگیلا بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ حضرت کی عزت بیان کرنے کے لیے کئی قصے ہیں۔ ان قصوں کو شائع کرنا مغربی جرائد ہی کے لئے مناسب ہے۔ البتہ اس مسالے دار مضمون کی بانگی ضیا شاہد صاحب کی زبانی حاضر ہے۔ ضیا صاحب نے’چودھری صاحب“ پر سلسلہ وار کالم میں ایک جگہ لکھا کہ ”ایک مرتبہ حضور نے عالمی کانفرنس میں سب کے سامنے گملے میں پیشاب کر دیا تھا“۔ ان کی ساری زندگی کا نچوڑ پڑھنے کے لیے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ ہی بہت ہے۔ انہی ”چودھری صاحب“ کے دور کی آئینی حیثیت پر عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ موجود ہے تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ ”بابا جی“ نے عاصمہ جیلانی کی انصاف کے لئے پکار پر اپنا فیصلہ تب سنایا جب ”پاکستانی محمد شاہ رنگیلا“ منظر نامے سے غائب ہو چکے تھے۔

ملک کا ”وڈا چودھری“ پھر بدلتا ہے۔ چودھری کہنا تو ان کے لیے بے عزتی کی بات ہو گی کیوں کہ وہ تو مردِ مومن، مردِ مجاہد اور مردِ حق تھے۔ جبکہ میں انہیں ”مولوی “ کہنے پر اکتفا کروں گا اور مولوی بھی ایسا جس کی امامت میں بڑے بڑے ”پھنے خاں “ بغیر وضو کے نمازیں پڑھتے رہے۔ اس چودھری کے دور میں ”بابا جی“ کی عدالت میں بے بنیاد قتل کے مقدمے میں گرفتار کیے گئے ایک منتخب وزیرِاعظم کو پیش کیا جاتا ہے۔ حسبِ روایت ”بابا جی“ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی گردن کو جھکاتے ہوئے ”چودھری صاحب“ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور  ”گستاخ وزیرِاعظم“ کو تختہ دار پر لٹکانے کا حکم دے دیتے ہیں۔

ویسے ایک بابا جی نے ”پھنے خانی“ دکھاتے ہوئے ایک انٹرویو میں اپنے اس ”سجدہ غیر اللہ“ کا اعتراف بھی کیا۔ یہ انٹرویو ادیب جاودانی صاحب نے اپنی کتاب ”بھٹو کی پھانسی اور بینظیر کا قتل “ میں شامل کر رکھا ہے۔ چند سال بعد ایک اور سندھی سیاست دان وزیرِاعظم بنتے ہیں اور کسی موقع پر ”وڈے چودھری “ کی ہاں میں ہاں ملانا بھول جاتے ہیں۔ اس گستاخی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وزیرِاعظم کو ایوانِ وزیرِاعظم سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جاتی ہیں۔ حاجی سیف اللہ ”بابا جی“ کی عدالت میں جا کر ”رتی برابر“ انصاف مانگتے ہیں مگر ”بابا جی“ چودھری کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ اسی دوران ”وڈے چودھری صاحب“ ایک فضائی حادثے میں اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں مگر ”بابا جی“ کو نئے چودھری صاحب کی طرف سے بھی یہی حکم ملتا ہے کے”اسمبلیاں بحال مت کرنا “۔

پھر ایک اور ”چودھری صاحب“ ملک کو خاندانی وراثت سمجھتے ھوئے اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ویسے ان چودھری صاحب کے کپڑے اتارنے کے لیے ان کے ”نکے چودھری“ کی کتاب ”یہ خاموشی کب تک“ ہی کافی ہے۔ امریکی صدر کے فون کے علاوہ کسی سے نا ڈرنے والے اس چودھری کی عزت کی خاطر ”بابا جی“ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بابا جی اس بار بھی ”رانی جی“ کے ہاتھ مزے مزے سے دبانے والے اس ”چودھری“ کے جمہوری حکومت پر قبضے کے فعل کو ”عین حلال“ قرار دیتے ہیں۔ اس ”بابا جی“ کی عزت کا قطب مینار تب زمین بوس ہوتا ہے جب ان کے اپنے بیٹے کا ملک کے معروف بزنس مین (وہی حضرت جن کے بیگ ”ریٹائرڈ چودھری“ اٹھاتے ہیں) کے ساتھ ایک مالیاتی اسکینڈل پکڑا جاتا ہے۔ اس ”بابا جی“ کی مثال اس بندے جیسی ہے جو خود بے لباس ہو اور دوسروں کو انڈرویر فروخت کرنے نکل آئے۔۔۔۔ آج کل باباجی ایک سیاسی پارٹی چلا رہے ہیں جس کو چلاتے ہوئے انہیں اپنی مقبولیت کا اندازہ بخوبی ہو گیا ہو گا۔ پارٹی ممبران میں ”بابا جی، بابا جی آپ ہیں، بابا جی خود ہیں اور بس خود ہی ہیں “۔

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی کہ ایک ایسا وقت آتا ہے جب ”وڈے چودھری“ کو ملک کے ”بھیڑ بکریوں نما عوام“ کے بھرپور دباؤ پر اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ اسے ملزم کی حیثیت سے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔  ”مالک مالک ہوتا ہے اور نوکر نوکر“ بابا جی ایک بار پھر اس اصول کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں اور وڈے چودھری کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

کم عمری کے باعث میں نے بہت ہی کم ”بابے“ ایکشن میں دیکھے ہیں۔ اب حال بیان کرتے ہیں آنکھوں دیکھے ”بابا جی‘‘ کا۔ بابا جی کا پورا نام ”بابا رحمت دین“ تھا۔ بابا رحمت دین کی جوانی شاید سلطان راہی کی ایکشن فلمیں دیکھتے گزری تھی کیونکہ ان فلموں کا اثر ان کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ بابا جی کو بھی سلطان راہی کی طرح بڑے بڑے ڈائیلاگ مارنے کا شوق تھا۔ مثال کے طور پر بابا جی کا ڈائیلاگ ”میرے اوپر دباؤ ڈالنے والا آج تک کوئی پیدا ہی نہیں ہوا“ سلطان راہی کے مشہور ڈائیلاگ ”مولے نوں مولا نہ مارے تاں مولا نہی مردا“ سے کسی طور کم نہیں ہے۔

بابا رحمت دین نے لازوال فلمی انداز اپناتے ہوئے متعدد بار ”کھڑکی توڑ“ پرفارمنس دے کر خوب داد بٹوری۔ ایک ایسی ہی فلم کی کہانی ملک کے معروف بزنس مین کے گرد گھومتی ہے، جس میں آخر کار ”بابا رحمت دین“ پانچ سو ارب میں معاملہ سیٹل کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک اور فلم کراچی پولیس کے ایک ”گبر سنگھ“ کے گر د بھی گھومتی ہے جس میں بابا جی بے بس نظر آتے ہیں۔ معاملہ چاہے سیاست دانوں میں پیسے بانٹنے کا ہو یا پھر اوکاڑہ فارمز کا ہو ”بابا رحمت دین“ کی ساری بہادری ٹھس ہو جاتی ہے۔

سابق ”وڈے چودھری“ کی غداری ہو، سابق وزیرِاعظم صاحبہ کا قتل ہو یا ایک بڑے بلوچ لیڈر کا قتل ہو، اس پر ”بابا رحمت دین“ کی ”بولتی“ بند۔۔۔ اسی طرح کے ایک اور چودھری کے بھائی کے اسلام آباد میں کارناموں پر بھی بابا جی کی آنکھیں بند۔۔ اور تو اور بابا جی کو تو چودھریوں کے پالے ہوئے ایک ”گامے“ کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا تھا۔

”بابا رحمت دین“ کا کردار کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے، اور کل بھی زندہ رہے گا۔۔ مگر اس کردار نے ایک چیز کا قتل کر ڈالا ہے اور وہ ہے انصاف۔ اس لیے 17 جنوری کے بعد میرے کانوں میں بار بار ایک ہی آواز گونجے گی کہ۔۔۔۔۔ ”بابا رحمت دین“ کا انصاف مر گیا ہے، نمازِجنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔۔۔۔۔ حضرات اعلان دوبارہ سماعت فرمائیں۔۔۔۔۔ ”بابا رحمت دین“ کا انصاف مر گیا ہے، نمازِجنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).