آئین کو اونگھ نہیں آتی


چیف جسٹس ہردلعزیز اپنا سنکھ پھونک کے رخصت ہوئے۔ نقیبوں نے عہد نو کے نقارے پہ چوٹ کی۔ نامزد قاضی القضاۃ کا جلوس، جلال پادشاہی اور سطوت اختیار کے جلو میں نمودار ہوا۔ آواز نفیری اور تاشے کی دم بہ دم بلند ہوتی جاتی ہے۔ درویش بے نشاں نے اپنی بانسری ہونٹوں سے الگ کر کے زنبیل میں رکھ لی اور گردش ایام کے تماشے میں محو ہوا۔ ایک آزمائش ختم ہوئی، ایک امتحان باقی ہے۔ شہر افسوس کے گلی کوچوں میں افواہ کی چپاتیاں بٹ رہی ہیں۔ شکل و صورت ہر ایک کی جدا گانہ مگر ذائقے میں نمک کی آمیزش ایک جیسی ہے۔

فوجی عدالتوں کی آئینی معیاد مکمل ہونے کو ہے۔ یہ عدالتیں جنوری 2015 میں دو برس کے لیے قائم کی گئی تھیں۔ 2017 میں انہیں دو برس کی توسیع دی گئی۔ اب سوال ہے کہ ان عدالتوں کو مزید توسیع دی جائے یا یہ سلسلہ لپیٹ لیا جائے۔ یہ امر طے ہے کہ فوجی عدالتیں انصاف کے ان اصولوں پر پوری نہیں اترتیں جن کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 10 (الف) میں دی گئی ہے۔ چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ نے بھی فوجی عدالتوں کو شفاف سماعت کے معیارات سے فروتر قرار دیا ہے۔ ادھر لاہور میں طوطی خوش مقال حافظ طاہر محمود اشرفی نے بیان دیا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک فوجی عدالتوں کو قائم رہنا چاہئیے۔ مولانا طاہر اشرفی کسی عوامی عہدے پہ فائز نہیں لیکن باخبر حلقے جانتے ہیں کہ صریر خامہ میں نوائے سروش کی بازگشت ہے۔ حکومت نے اس معاملے پر پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کرنا مشکل ہو گا۔ بے شک 16 دسمبر 2015 کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں تاہم ٹھیک ٹھیک بتانا مشکل ہے کہ اس میں فوجی عدالتوں کو کس حد تک دخل ہے کیونکہ اس دوران فوجی اور انتظامی اقدامات بھی کئے گئے۔ اگر کسی دباؤ کے تحت فوجی عدالتوں کے ہنگامی بندوبست کو مزید طوالت دی گئی تو خدشہ ہے کہ اسے مقتدر قوتوں میں اختیار کی کشمکش کے زاویے سے دیکھا جائے گا۔

گذشتہ برس فروری میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں شروع ہونے والا شکوک و شبہات کا سلسلہ آہستہ آہستہ متشکل ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس (ریٹائرڈ) ثاقب نثار نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث مباحثہ نہیں کیا گیا۔ جاننا چاہئیے کہ آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے لیے بھی پارلیمنٹ کے فلور پہ جامع بحث نہیں ہوئی تھی بلکہ اس مقصد کے لیے قائم کردہ کمیٹیوں ہی نے ترمیم کے مسودے کو آخری شکل دی تھی۔ اٹھارہویں ترمیم تو اس لحاظ سے بہت شفاف عمل تھا کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی 29 رکنی کمیٹی کے نو ماہ میں 200 اجلاس منعقد ہوئے۔ ہمارے مخصوص تاریخی تناظر میں بہت سے معاملات کھلے عام زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ مثال کے طور پہ آٹھویں آئینی ترمیم پر بحث مباحثے کے لیے پارلیمینٹ کا فلور کیسے استعمال کیا جاتا؟ تب بنیادی اختلاف تو مارشل لا اٹھانے پر تھا اور وزیر اعظم جونیجو اس قدر بااختیار تھے کہ پاکستان ٹیلیویژن پر ان کا یہ جملہ نشر ہونے سے روک دیا گیا کہ ’جمہوریت اور مارشل لا ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘۔ سترہویں آئینی ترمیم کے لئے بند کمروں میں طویل مذاکرات کے دوران نکتہ نزاع پرویز مشرف کی وردی تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اپنے جوہر میں وفاق پاکستان کی بنیادی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی ہمارے آئینی بندوبست کا تقاضا ہے۔ یہ ایک ناقابل تصدیق عمومی بیان ہے کہ صوبے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔ جاننا چاہیے کہ مضبوط مرکز کی چھتر چھایا تلے قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی بھی کچھ ایسی تابناک نہیں رہی۔ 1973 کا آئین چوالیس برس مکمل کر چکا ہے اور اسے ہماری قومی تشکیل میں اساسی دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں کو احساس تحفظ دینے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم 1973 کے دستور کی مثبت توثیق ہے۔ اس عمرانی معاہدے کو پھر سے موضوع بحث بنانے سے مملکت کے جہاز کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اس دوران ہمارے سینئر شعلہ بیان صحافی نے بیچ چوراہے بیٹھ کے ٹیکنو کریٹ حکومت کی پرانی مگر سدا سہاگن بحث چھیڑ دی۔ صحافت کے یاجوج ماجوج اور گنجفہ ہائے کبیر سے سوال کرنا چاہئیے کہ حضرات گرامی، آپ عمران خان حکومت کے پانچ مہینے دیکھ کے کائناتی نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے تو آپ کی معاملہ فہمی اور مردم شناسی پہ سوالیہ نشان لگانا چاہئیے۔ آپ نے کن معلومات اور تخمینوں کی بنیاد پر برس ہا برس قوم کو ایسے خواب فروخت کیے جن کا عملی دنیا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ قلم قبیلے سے قطع نظر، نامزد چیف جسٹس تو فیصلہ سازی کی چوٹی پر فائز ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے ’میثاق حکومت‘ کی تجویز چند درچند خدشات کو جنم دے گی۔ ہمارے دستور میں حاکمیت اعلیٰ کو جمہور کے منتخب نمائندوں کی امانت قرار دیا گیا تھا۔ کیا حاکمیت اعلیٰ ایسا معاملہ ہے جسے منتخب نمائندوں اور بلحاظ عہدہ اعلی مراتب پر فائز ہونے والے اہلکاروں میں قابل جواز بحث کا موضوع قرار دیا جائے؟

ہمارے محترم برادر قلم کہتے ہیں کہ آئین تھک چکا ہے۔ اسے کچھ مدت کے لئے ایک طرف رکھ کر ٹیکنو کریٹس کی ذہانت اور فطانت کو موقع دینا چاہیے یعنی گزشتہ دو برس میں ردے پر ردا جما کے ہمالیہ جیسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا اور اب اس غطی کے تاوان میں پورے گاؤں کو ڈائنا مائیٹ سے اڑانے کی تجویز ہے۔ آئین وہ دھڑکتا ہوا دل ہے جسے اونگھ آ جائے تو جیتی جاگتی قوم شمشان گھاٹ کی ارتھی بن جاتی ہے۔ آئین ایسی چیز نہیں جسے سہولت کے مطابق جزدان میں لپیٹا جا سکے۔ یادش بخیر، اٹھارہویں آئینی ترمیم ہی نے دستور پر عمل درآمد میں تعطل کو غداری (High Treason) قرار دیا ہے۔ گویا آئین میں تعطل کی کوئی گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ معمولی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت کس طرح ریاست کے تشکیلی خطوط پہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھ سکتی ہے؟ جولائی 2018 میں قانون ساز پارلیمینٹ منتخب کی گئی تھی۔ اسے دستور سازی کا مینڈیٹ بھی حاصل نہیں، غیر منتخب ریاستی عہدیداروں کے ساتھ عمرانی معاہدے کے اساسی خدوخال پر بحث مباحثہ تو بہت دور کی بات ہے۔ فرانسسکو گویا کی معروف پینٹنگ کا عنوان ہے، ’جب عقل کو اونگھ آ جاتی ہے تو عفریت جنم لیتے ہیں‘۔ آئین قوم کی عقل و خرد کا استعارہ ہے۔ آئین کو اونگھنے کی اجازت نہیں۔ آئین کی توانائی اس کے تسلسل سے راست تناسب رکھتی ہے۔ آئین تھکا نہیں کرتے۔

لکھو کہ راہوار تھک گئے ہیں۔

لکھو کہ اس واقعے کے اندر جو تھی کہانی بدل گئی ہے۔

گنو، ہیں قبروں پہ پھول کتنے

شمار کرنا کہ ترکشوں میں بچے ہوئے ہیں اصول کتنے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).