میڈیا کے حالات اور متاثرہ کارکن


تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے آتے ہی، جہاں ملک کے دیگر شعبے اور وہاں کام کرنے والے شدید متاثر ہوئے ہیں، وہیں سب سے زیادہ نقصان میڈیا انڈسٹری کے اس کارکن کا ہوا ہے جو بیچارہ اخباروں اورچینلز کے ڈیسک پر کام کرتے کرتے اپنے بال سفید کر بیٹھا لیکن اس کے بدلے میں اسے کیا ملا؟ نوکری سے برطرفی کا نوٹس! اوروہ نوٹس بھی اس عمر کے حصے میں دیا جاتا ہے جب وہ کوئی اور کام کرنے کے نہ تو اہل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے دوسرے کام کرنے کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔

یہ میڈیائی اداے اور ان کے سربراہان جو ان ہی کارکنوں کی محنت پر ناز کیا کرتے تھے، اب انہیں ہی اچانک سے یہ کارکن بیکارسے لگنے لگے اورانہوں نے ان کو اداروں پر بوجھ گنوا کر ان کی نوکریوں سے یک لخت فارغ کرنے کے احکامات صادر فرما دیے۔

میڈیائی اداروں کے ان کارکنوں کو فارغ کرتے وقت کسی ادارے کے سربراھ یا مالک نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کو فارغ کرنے سے ان کے بیوی اور بچوں کا کیا حال ہوگا، ان کے گھر کے چولہے کیسے جلیں گے، ان کے بیمار ماں باپ کا علاج کیسے ہو گا، ان کے بچوں کی تعلیم کیسے تکمیل کو پہنچے گی؟

میڈیا مالکان اور اداروں کے سربراہان کو تو بس سرکاری اشتہار نہ ملنے کی صورت میں جیسے ایک بہانا سا مل گیا ہو، بیسیوں سالوں سے اربوں کھربوں روپے کما کر، بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے اچانک ایک دو مہینے کے اشتہار بند ہونے سے جیسے اتنے کنگال ہوچکے ہوں کہ ان کے پاس بیس تیس ہزار روپے والے کارکن کو دینے کے لیے تنخواہ تک نہیں ہوتی۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام ادارے ان کارکنوں کی محنتوں سے ہی پلے بڑھے ہیں، یہ تمام ادارے ان کی آنکھوں کے سامنے زمین سے آسمان تک جا پہنچے ہیں اور یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ میڈیا مالکان نے اتنے بڑے بڑے ادارے کیسے بنائے ہیں، انہوں نے کون سے طریقے استعمال کیے، کس طرح انہوں نے حکومتوں سے ڈیلیں کی، کس طرح حکومتوں اور مختلف جماعتوں کا منجن بیچا، لیکن ایک بیچارہ ادنی کارکن ان تمام حرفتوں اور چالاکیوں سے بہت دور، بہت دورصرف اپنی محنت و مشقت میں دن رات مصروف رہا، جس نے اپنی سماجی زندگی، اپنے عیش و آرام، اپنے عزیز و اقارب، اپنے دوست اور احباب حتی کہ اپنی ازدواجی زندگی کو بھی نوکری کے نام پر داؤ پر لگا دیا لیکن صلے میں اس کو کیاملا؟ ادارے سے رخصتی کا پروانہ؟!

یہ کہانی کسی ایک ادارے کی نہیں، اب تو تمام اداروں نے ملی بھگت سے ایک پالیسی بنا لی ہے اور یہ بات بھی واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ یہ میڈیا مالکان جو ویسے تو ان ہی کارکنوں کو ایک دوسرے کے ادارے کے خلاف بھڑکا کر انہیں استعمال کرتے رہے ہیں لیکن جب ان کا اپنا وقت آیا ہے تو یہ سارے مل کر ایک ہوگئے ہیں اور یکجا ہو کراس کارکن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے جو کبھی ان کا انتہائی خیر خواہ اور ذریعہ روزگار رہا ہے۔

یہاں پر بات صرف میڈیائی اداروں اور ان کے مالکان اور سربراہان کے بے حسی کی ہی نہیں بلکہ رونا تو ان میڈیا کے نام پر بنی سیکڑوں تنظیموں اور ان کے نام نہاد سربراہوں اور رہنماؤں پر آتا ہے جو سال میں ایک مرتبہ و ووٹ حاصل کرنے اور اپنے آپ کو جتوانے کے لیے توان کارکنوں کو اپنا کہہ کر پاس آنے دیتے ہیں یا پھر ان کے پاس چلے جاتے ہیں، لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کا حال بھی اسمبلی کے اس نمائندے جیسا ہوتا ہے جو اپنے حلقے سے ووٹ لے کر اسے غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ!

یہ نام نہاد میڈیائی تنظیموں کے خود ساختہ لیڈران بھی ان مالکان سے کم نہیں ہوتے جو موقع پاتے ہی کسی کا منجن بیچنے کے لیے اپنا چینل یا اخبار استعمال کرنے دیتے ہیں اور یہی نام نہاد لیڈران انہی مالکان کے پٹھو ہوتے ہیں جنہیں اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان کیا جاتا ہے اور چاہے آندھی آئے یا طوفان ان کی ملازمتوں کو خراش تک نہیں پہنچتی، ادارے کنگال ہوجائیں یا تباہ، عام کارکن سارے نکال دیے جائیں لیکن ان کی نوکریوں کو کچھ نہیں ہوتا۔

یہ نام نہاد لیڈران جو ان ہی بیچارے کارکنوں کے نام پر تنظیمیں بناکر ان ہی کے نام پر کروڑوں کے فنڈز لے کر خود ہی ہڑپ کرجاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کارکنوں کی فلاح کے لیے کوئی عملی اقدام بھی کیا ہو، ہاں یہ الگ بات ہے کہ صرف دکھاوے کے لیے سال میں ایک مرتبہ کوئی ایسا ایونٹ ضرور منعقد کروایا جاتا ہے جس سے وہ کارکنوں کی ہمدردیاں اور ان کی وابستگیاں سمیٹتے ہیں۔

جب سے میڈیا کا یہ اندوھناک بحران چل پڑا ہے، کتنے کارکنوں کو ان تنظیموں نے واپس ملازمتیں دلوائی ہیں کتنے کارکنوں کا کیس انہوں نے عدالتوں میں لڑا ہے کتنوں کو بحال کروایا ہے یا کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس سے ان کی کارکن ہمدردری کی تھوڑی سی بھی جھلک نظر آتی ہو۔

یہ لوگ ان کارکنوں کا ساتھ دینے کے دعوے تو بہت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ ان کا کیس نہ تو مالکان تک پہنچاتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں تک کیوں کہ ان دونوں صورتوں میں ان کے مفاد کی کوئی چیز نہیں ہوتی وہ نہیں چاہتے کہ اپنے روزگار کو داؤ پر لگا کر وہ ان کارکنوں کی روزی روٹی بچانے کا ذریعہ بنیں۔

اس سارے بحران میں ایک کردار عدالتوں کا بھی ہے جو بھی ہمیں کہیں پر نظر نہیں آتا، سپریم کورٹ نے بھی نہ جانے کتنی بار میڈیا مالکان کو کارکنوں کی تنخواہوں اور ان کی ملازمتوں کی بحالی کے حوالے سے احکامات جاری کیے ہیں لیکن ان کے کسی ایک حکم کی بھی ابھی تک تعمیل ہوتی دکھائی نہیں دی۔

اس ساری صورتحال میں میڈیا مالکان نے عام کارکنوں کی ملازمتیں ختم کرکے ان کو راستوں پر لا کھڑا کرکے اصل میں حکومت کو پھر بلیک میل کرکے اپنے ہی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور حکومت نے بھی اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے فریق میڈیا کے کارکن کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے جو اس حکومت اور اس میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).