منٹو صاحب! اب سب اچھا ہے


اب وہ دن نہیں رہے کہ اِدھر افسانہ لکھا اور اُدھر عدالتوں میں مقدمہ چل نکلا، کیسا اندھیر تھا اُس زمانے میں کہ افسانہ نگار پر پچیس روپے جرمانہ بھی ہوجاتا تھا لیکن اب وقت کافی بدل گیا ہے۔ اب افسانوں پر کوئی مقدمہ نہیں چلتا اور جرمانے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔

ہماری عدالتوں میں افسانوں پر بحث کیوںکر ہو کہ ہم نے اٹھارہ لاکھ مقدمات کے فیصلے روک رکھے ہیں۔ دراصل ہم کوئی بھی فیصلہ جلدی میں نہیں کرتے۔ برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ مقامی لوگ اُس وقت فیصلہ لیتے ہیں جب فیصلے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔

سو ہم انتظار کررہے ہیں کہ کب اِن اٹھارہ لاکھ مقدمات کی ضرورت باقی نہ رہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مقدمہ ختم ہوا، ایک آدمی کو جب عدالت نے آزادی کا پروانہ تھمایا تو معلوم ہوا کہ ملزم تو دو سال قبل ہی موت کا پروانہ لے کر آزاد ہو چکا ہے۔ اِس پہ ایک کمیٹی بٹھا دی گئی ہے جو غور کر رہی ہے کہ اُس ملزم کے مقدمے پر بیس سال تک کیا غوروفکر ہوتا رہا ہے۔ ہم کمیٹیاں بنانے کے بہت شوقین ہیں جب ہم سے کوئی مسئلہ حل نہ ہوتو ہم ایک کمیٹی بنا لیتے ہیں۔ پھر اُس کمیٹی کی جانچ پڑتال ایک اور کمیٹی کرتی ہے پھر اِس طرح یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔ دیکھیں ہمارے ہاں بیروزگاری بہت زیادہ ہے سو مختلف چھوٹی بڑی کمیٹیاں بنا کر ہم روزگار مہیا کرتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک سہل پسند قوم ہیں۔ معذرت یہاں قوم کا لفظ اضافی ہے اور ایک افسانہ نگار کو تحریر میں اضافی الفاظ برے لگ سکتے ہیں سو آپ اِسے حذف کرکے پڑھیں۔

ہم سہل پسند۔ ہیں۔ سو مصروفیت کے لیے کمیٹیاں بناتے رہتے ہیں۔

جہاں تک بات افسانوں کی ہے، اول تو ادبی رسائل چند سو کی گنتی میں چھپتے ہیں اوراُن کو پڑھنے والے تو خال خال ہی نظر آتے ہیں، یہ دور ڈائجسٹ میں لکھے گئے کمرشل افسانوں کا دور ہے۔ ”نقوش“ کے طفیل صاحب آپ کو ہر افسانے کا پچیس روپے معاوضہ دیتے تھے اِس دور میں ادبی رسائل مفت میں لکھواتے ہیں، اشتہارات اِن کو ملتے نہیں تو افسانہ نگار کو روپے کہاں سے دیں۔ سو مفت لکھتے ہیں۔ حلقوں کی گہماگہمی اُسی طرح ہے ناقدین کی نظر میں ہر پیشکش پہلے سے پیش ہوچکی ہے اور بیکار ہے۔

بڑے بڑے ناقدین کی اپنی نگارشات ابھی بھی بہتر نہیں ہوسکیں، اِس بارے میں نے جتنا غور کیا ہے اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ جتنی گہری ناقدانہ نگاہ دوسروں کے لکھے پر ڈالتے ہیں اُس سے آدھا وقت اگر وہ اپنی تحریر پہ صرف کریں تو بہت اچھا لکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیوں کہ وہ پہلے ہی خود کو ادب کی بڑی کرسی پربراجمان کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

لوگ کتابیں بہت کم پڑھتے ہیں لیکن کتاب میلے بہت زیادہ ہوتے ہیں ہرشہر میں ہر ماہ کوئی نا کوئی کتاب میلہ منعقد ہو رہا ہوتا ہے جہاں لوگ کتابیں خرید کر سیلفیاں بنوا رہے ہوتے ہیں پھر وہ کتابیں شیلفوں میں لگا دی جاتی ہیں جہاں سال کے سال گرد صاف کی جاتی ہے اور کچھ سال بعد سب کتابیں ردی میں بیچ دی جاتی ہیں۔ میں ہر اتوار پنڈی میں فٹ پاتھ سے ایسی پرانی کتابیں چُن چُن کر خرید لاتا ہوں کہ جن پر مصنفین کے دستخط ہوتے ہیں۔ ادبی میلوں میں پہلی قطار پر ہمیشہ بڑے لوگ بیٹھتے ہیں جو کسی کو آگے نہیں آنے دیتے۔

یہ مضمون کافی طویل ہوتا جارہا ہے جب کہ اپنی طبعیت ٹھیک نہیں یہاں سب کچھ اچھا ہے لیکن ادویات دو نمبر ملتی ہیں۔ چچا سام کے نام خط میں آپ نے لکھا کہ آپ کو دیسی شراب دو نمبر ملتی ہے اور اب یہ دور کہ مرچوں سے لے کر ادویات تک سب دونمبر ہے۔

منٹو صاحب، آپ کے افسانوں پر پہلے بھی پابندی لگتی رہتی تھی سو اب بھی افسانے پابندی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں آج کل آپ پر بڑی فلمیں بن رہی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں آپ کی انڈیا والی فلم پر پابندی ہے، معلوم نہیں ایسا کیا ہے بہرحال وہ سرحد کے اُس پار دیکھی جا سکتی ہے لیکن سرحد کے اِس پار اُس کے دیکھنے پر پابندی ہے۔

میرامشورہ تو یہ ہے کہ دو سرحدوں کے درمیان وہ جگہ کہ جس کا کوئی نام نہیں تھا، ہاں جس جگہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا وہاں اِس فلم کی نمائش کی جانی چاہیے تاکہ دونوں طرف کے لوگ اِسے دیکھ سکیں۔ بہرحال اتنا زیادہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آپ کے دوست اور ہمارے استاد احمدندیم قاسمی صاحب نے ایک نظم لکھی تھی یہ نظم آپ نے شاید نہ سنی ہو گی کہ یہ اُن خطوط میں بھی نہیں ہے جو قاسمی صاحب نے آپ کو لکھے تھے۔ نظم میں لکھتے ہیں کہ

کیوں بھی کہنا جرم ہے

کیسے بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی آزادی تو میسر ہے مگر

زندہ رہنے کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے

اور ”اِس کچھ اور بھی“ کا تذکرہ بھی جرم ہے۔

لیکن بات یہ ہے منٹو صاحب کہ اِس گھٹن زدے معاشرے میں بھی کچھ لوگ اب بھی آپ کے لیے، آپ کے افسانوں کے لیے اور آپ پر بنی فلم پہ لگے بین ہٹوانے کے لیے جنگ لڑرہے ہیں۔ میں بھی ایک ایسے منٹو کے دیوانے کو جانتا ہوں۔ پشاور میں رہتا ہے اور سڑکوں پہ آپ کے پوسٹر لے کر پھرتا ہے، کچھ اور بھی لوگ ساتھ ہوتے ہیں، صفی سرحدی نام ہے۔

منٹو صاحب ایسے دیوانوں کو دیکھتا ہوں، رات گئے کوئی افسانہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ تاریکی ہے لیکن اتنی بھی تاریکی نہیں۔

شاید وقت بدلے۔

شاید۔

اور اِس شاید سے آگے سوچنا بھی جُرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).