“لائیو ویڈیو چیٹ ” اور گھناؤنے دھندے


موبائل فون کا فرنٹ کیمرہ آپ کی زندگی کس قدر تباہ کر سکتا ہے ؟ شاید ہی کچھ لوگوں کو اندازہ ہو۔ سوشل میڈیا پرایسی مختلف ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس کی بھرمار ہو چکی ہے جو بظاہر تفریح کےلئے ہیں لیکن دراصل یہ عریانی و فحاشی پھیلانے کےساتھ ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ فحش ویب سائٹس سے تو اب سب لوگ آگاہ ہی ہیں لیکن آجکل ایک نیا جال لائیو ویڈیو چیٹ کی ایپلیکیشنز کا بھی ہے۔سمارٹ فون پر ان ایپلیکیشنز کو انسٹال کرنے سے آپ آن لائن موجود ممبرز سے ویڈیو بات چیت کر سکتے ہیں۔بظاہر یہ سب کچھ سیدھا سادھا سا معلوم ہوتا ہے کیونکہ فیس بک، واٹس ایپ جیسی سوشل میڈیا ایپلیکیشنز بھی آپ کو ویڈیو چیٹ کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

گزشتہ دنوں چند آئی ٹی ماہرین سے ملاقات میں چند ایسے گھناؤنے حقائق کا پتہ چلا جن کو سن کر آپ پریشان ہو جائیں۔ ان لائیو ویڈیو چیٹ ایپلیکیشنز کے ذریعے جرائم پیشہ نیٹ ورک چلائے جا رہے ہیں۔ بلیک میلنگ اور ہیکنگ کے ذریعے لوگوں سے بھاری رقوم بٹوری جا رہی ہیں۔ دراصل جب بھی آپ کوئی لائیو ویڈیو چیٹ ایپ انسٹال کرتے ہیں تو آپ کے موبائل فون میں محفوظ تمام نمبرز، تصاویر اور دیگر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ لائیو چیٹ کے مزے کے چکر میں آپ بس ہر جگہ OK ہی کرتے جاتے ہیں اور تمام پرمیشنز کو ACCEPT کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو لائیو چیٹ کی سہولت ملتی ہے۔

اسی طرح آپ مختلف لوگوں کی لائیو ویڈیو چیٹ دیکھ بھی سکتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد نوجوان لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ہنسی مذاق، بے تکلفی کی باتیں اور دوستی کی دعوت، کسی کو بھی متاثر کرنے کے لئے بھرپور اہتمام کیا گیا ہوتا ہے۔ اچانک ایک سجی سجائی لڑکی آپ کو بات چیت کے لئے انوائیٹ کرتی ہے۔ ظاہر ہے آپ ویڈیو چیٹ کے لئے ہی اس پلیٹ فارم پر آئے ہیں۔ آپ بھی بات چیت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ یہاں مختلف لوگوں کے درمیان مقابلے ہو رہے ہوتے ہیں۔ آپ سے “سٹارز” مانگے جاتے ہیں۔ ان سٹارز کے مختلف رنگ ہیں، بلیو، گولڈن، سلور اور دیگر سٹارز ہوتے ہیں۔ ابتداء میں چند سٹارز آپ کو مفت ملتے ہیں۔ آپ دل کھول کر سٹارز بانٹتے ہیں۔ اسی دوران آپ سے بات چیت کرنیوالی لڑکی مزید سٹارز کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔

آپ کے سامنے آپشن موجود ہوتی ہے کہ سٹارز کو خریدیں۔ اس صورتحال کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ لائیو چیٹ پر موجود لڑکیاں سٹارز کے لئے جسم برہنہ کرنے کی آفر ز کرتی ہیں۔ اور باقاعدہ یہ سب چیٹ روم میں ہوتا بھی ہے۔ خیر آپ تفریح اور ہنسی مذاق میں اپنی رقم خرچ کر ڈالتے ہیں۔ یہ سب غیر اخلاقی ہے لیکن آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں خطرہ کہاں ہے۔ اس سارے معاملے کا ایک بھیانک پہلو بھی ہے۔جب آپ ہنسی خوشی باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا فرنٹ کیمرہ آپ کی ویڈیو بنا رہا ہے۔ آپ ایک ایسے چیٹ روم میں ہیں جہاں ایک لڑکی اپنے جسم کے چند حصوں کو آپ کی خواہش اور مطالبے پر برہنہ کرنے پر تیار ہے اور آپ اسے سٹارز گفٹ کر رہے ہیں۔

اس کا اندازہ تب ہوتا ہے کہ جب کچھ روز کے بعد اس سارے کھیل کی چھوٹی سی ویڈیو آپ کو واٹس ایپ پر موصول ہوتی ہے۔ آپ کے تمام موبائل نمبرز پہلے ہی ان کے پاس موجود ہیں جن میں آپ کے قریبی دوستوں، بھائی بہن، ماں باپ، آفیسرز وغیرہ کے نمبرز بھی ہیں۔ آپ کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اتنی رقم فراہم کر دیں ورنہ آپ کی یہ حرکت ویڈیو کی صورت میں سب کے پاس پہنچ جائے گی۔ اسی دوران وہ آپ کی مالی حالت کا اندازہ بھی لگا چکے ہوتے ہیں کہ آپ سے کتنی رقم کا مطالبہ کرنا ہے۔ تب ہی آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو لڑکی آپ سے دوستی کر رہی تھی، سٹارز کے ترلے کر رہی تھی دراصل وہ بھی اسی گینگ کا حصہ تھی۔ آپ کی ویڈیو بنائی جا رہی تھی۔

اب یا تو آپ ان بلیک میلرز کی پرواہ نہ کریں اور آپ کو یہ ویڈیو کسی کے پاس بھی جانے کا ہرگز کوئی ڈر نہ ہو۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ پریشر برداشت نہیں کر پاتے کہ ان کی ایسی ویڈیو ماں باپ، بھائی بہن، بیوی یا شوہر اور اسی طرح آفیسرز دیکھ لیں۔ وہ لوگ رقم دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور مسلسل بلیک میل بھی ہوتے ہیں۔

اس سے بھی کہیں زیادہ خطرے والی یہ بات بھی ہے کہ ایسے نوجوان کسی کو بتاتے بھی نہیں ہیں جبکہ ان گروہوں کا خاص ہدف ہاسٹل میں رہنے والے لڑکے، گھر سے دور محنت مزدوری کرنیوالے اور گھریلو ماحول کی گھٹن کو سوشل میڈیا کی تفریح میں ڈھونڈنے والے افراد ہیں۔ مجھے ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ ایسی کئی ویب سائٹس لاہور، کراچی سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ ان کے لئے باقاعدہ لڑکیوں کے گروہ ملازم رکھے جاتے ہیں جو کہ نئے ممبران کے ساتھ ویڈیو چیٹ کرتی ہیں۔ دوستی بڑھائی جاتی ہے، سٹارز مانگے جاتے ہیں، بظاہر چند مطالبے بھی پورے کئے جاتے ہیں لیکن آخر کار ایک بھیانک انجام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ بھی بہک کر کوئی غیر اخلاقی حرکت کر بیٹھیں تو آپ کی یہ ویڈیو کسی پورن ویب سائٹ کو بیچی بھی جا سکتی ہے۔

آپ کسی آئی ٹی ماہر سے پوچھ لیں کہ بعض ویب سائٹ پر جاتے ہی آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ کا فرنٹ کیمرہ خودبخود آن ہو جاتا ہے جو کہ آپ کی ویڈیو بناتا ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگ ان ایپس کو تفریح کے لئے سمجھ کر بڑی رقوم سے محروم ہو چکے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی گھریلو لڑکی ایسی کسی ایپ کو انسٹال کر لے تو اس کے لئے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار حکومتی ادارے، پی ٹی اے اور ایف آئی اے ان سائبر کرائمز کا نوٹس لیں اور اسی گھناؤنی ایپس کا سراغ لگایا جائے۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ان بھیانک جرائم سے محفوظ بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).