ہر عروج کو زوال ہے


یہ جملہ میں نے بہت پہلے سنا تھا، لیکن کبھی اس جملے پر یقین نہیں آیا کہ عروج کو زوال کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک سال سے شریف فیملی کے خلاف جب صورتحال دیکھ رہا ہوں تو دماغ میں یہی جملہ گردش کررہا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے یقیناً۔ تاریخ کے پہرائے میں نواز شریف کی سیاسی اونچھ نیچ کچھ یوں ہیں۔

نواز شریف نے سیاست میں 37 سال پہلے قدم رکھا جب نواز شریف کی سیاسی تربیت پاکستان کے فوجی آمر جنرل محمد ضیاءالحق کے زیر سایہ ہوئی۔ ضیاء دور میں وہ لمبے عرصے تک صوبائی حکومت میں شامل رہے۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 ء میں صوبائی کابینہ میں بطور وزیرِخزانہ شامل ہو گئے۔

آمریت کے زیرِ سایہ 1985 ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف قومی اور صوبایی اسمبلیوں کی سیٹوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 9 اپریل، 1985 ء کو انھوں نے پنجاب کے وزیرِاعلٰی کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ مئی 1988 ء میں جنرل ضیاءالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں نواز شریف کو نگران وزیراعلٰی پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا گیا تو عام انتخابات میں نواز شریف دوبارہ پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہوگئے۔

اسی طور پر نواز شریف اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا آغاز ہوا۔ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد انتخابات ہوئے۔ 6 نومبر 1990 ء کو نواز شریف نے پہلی مرتبہ بطور وزیر اعظم حلف اُٹھایا۔ تاہم وہ اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکے اور ان کو اس وقت کے صدر نے ان کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ اعظمٰی نے ایک آئینی مقدمے کے بعد انھیں دوبارہ ان کے عہدے پہ بحال تو کر دیا تھا، لیکن ان کو جولائی 1993 ء میں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔

تیسری مرتبہ وہ 1997 میں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم اکتوبر 1999 ء میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کے کی تعیناتی کی کوشش کی۔ مگر ایک فوج بغاوت کے بعد ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 ء میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست، 2007 ء کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔

پابندیوں کی وجہ سے وہ تو انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ مگر پنجاب میں ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت بن گئی۔ 2013 کے اں تخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی پر وہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ مگر اس بار ان کی حکومت کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا۔ اسلام آباد میں دھرنے ہوئے اور سیاسی خلفشار بھی پورے عروج پر رہا۔ اپریل 2016 میں پانامہ انکشافات آئے تو وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی آف شور کمپنیوں کا بھی پتہ چلا۔

اس کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات کا آغاز ہوا۔ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔ کئی مہینوں تک کیس چلا جس کے دوران کئی ایسے موڑ بھی آئے جہاں حکمرانوں کی بریت نظر آئی۔ مگر آخر 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا۔ یوں خاندان شریفیہ کے زوال کا آغاز ہوگیا۔

اس فیصلے کے بعد نواز شریف پر نیب نے ریفرینسز درج کرنا شروع کردیے، ایون فیلڈ، العزیزیہ، اور فلیگ شیپ تین ریفرینسز باترتیب درج ہوئے، ایون فیلڈ ریفرینس میں جج  نے نواز شریف کو دس سال قید اور مریم نواز کو سات اور کیپٹن صفدر کو ایک سال با مشقت قید کی سزا سنائی تھی، اور اس کے ساتھ حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیے گئے تھے۔ اس کے بعد العزیزیہ اور فلیگ شیپ ریفرینسز بھی جاری رہے اور جیل سے احتساب عدالت کے چکر کاٹتے رہے، اور بلاآخر 24 دسمبر کو العزیزیہ اور فلیگ شیپ ریفرینسز کا فیصلہ جج نے سنایا جس کے نتیجہ میں فلیگ شیپ ریفرینسز میں ان کو بری کردیا جبکہ العزیزیہ میں سات سال بامشقت قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم اور ساتھ ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف بھی قانون کے شکنجے میں آچُکے ہیں، اور وہ بھی اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آج کل دونوں بھائی جیل  میں موجود ہیں۔

سوچئے۔ ! غرور اور تکبر ہمیشہ انسان کو پسپائی کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی زندہ مثال شریف خاندان اور پوری مسلم لیگ ن ہیں۔ مجھے یاد ہیں 2013 کے انتخابات کے بعد پوری مسلم لیگ کے ہوش ٹھکانے نہیں لگ رہے تھے، سعد رفیق سے لے کر خواجہ آصف اور پرویز رشید اور کئی بڑے بڑے نامور شخصیات، وزارتوں اور طاقت کے نشے میں دھت اس وقت کی کابینہ اپنے پاک دامنی سے زیادہ شریف فیملی کے شفافیت کے گواہیوں میں مصروف تھے۔

شریف خاندان پر موجودہ حالت ماڈل ٹاون کی ظلم کی سزا سمجھئیے یا پھر غریب عوام کی خون پسینے سے کمائی گی دولت میں خیانت کا انجام قدرت ہمیشہ انسان کو اپنی اوقات یاد دلاتا ہے۔

وہ نواز شریف جو پاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے۔ وہ شہباز شریف جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا دو مرتبہ وزیراعلی رہ چکا ہے، جس کے پاس مال و دولت، شاہانہ زندگی، ملک سے باہر اربوں کی پراپرٹی، رائے ونڈ محل، اور نجانے کیا کیا۔

اور دوسری طرف آج کا نواز شریف اور شہباز شریف جو ان دنوں جیل میں ایک دوسرے کے ہمسائے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

شریف فیملی کے بعد اب باری ہے زرداری اینڈ کمپنی کی۔ اور خوش آئند بات یہ کہ جن کیسز کا سامنا آصف علی زرداری صاحب کررہے ہیں وہ پچھلے حکومت کا ہی کریڈٹ ہے۔ اس کے ساتھ جے آئی ٹی کی رپورٹ گھپلوں اور فراڈ سے بھر پور منظر پیش کررہی ہے۔ اور یوں محسوس ہورہا ہے کہ بہت جلد آصف علی زرداری صاحب بھی اڈیالہ یا پھر ان کے مرضی کے کسی جیل میں ہوں گے۔

پاکستان کو آزاد ہوئے ستر برس سے زیادہ ہوچکے ہے، بڑھاپا بھی آچکا ہے لیکن کیوں اب تک یہ نہیں بدلہ، وجہ کیا ہے کہ وطن کو ترقی پزیر سے ترقی یافتہ کے پہرائے میں کیوں کھڑا نہیں کیا، اغیار سے ادھار لے لے کر پیرس اور لندن میں پراپرٹی خرید کر اپنے بچوں کے لیے اعلی تعلیم، ہزار نوکروں کا حصار، اور شاہانہ اور نت نئے گاڑیوں کے انبار، اور جب احتساب کا وقت آتا ہے تو جمہوریت ڈی ریل ہونے میں سیکنڈ ان کا نہیں لگتا۔ کبھی لندن پلان، کبھی میثاق جمہوریت اور کبھی گرینڈ الائنس بنا کر جمہوریت کے تحفظ کے نام پر اپنے کرتا دھرتا پر پردہ ڈالنے کی سر توڑ کوششیں۔

آج اگر یہ احتساب بلا انتقام اور سچے معنوں ہوا اور ان کو اپنے کیے کی سزا ملی تو پھر وہ وقت بھی دور نہیں کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک فہرست میں شمار کیا جاے گا۔ اور اگر یہ احتساب کہ نام پر اگر ڈرامہ ثابت ہوا تو یقین جانیے مکافات عمل ہوگا، آج جو وہ بھگت رہے کل موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی بھگتنا ہوگا۔ کیونکہ اگر آج ان کے ساتھ یہ احتساب کے نام پر ڈرامہ ہورہا ہے تو یقیناً کل آپ کے خلاف بھی یہی کچھ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).