ساہیوال: کیا آپ چین سے سو جائیں گے؟



عام سا ایک واقعہ ہے ہزاروں خون آلود واقعات میں سے ایک۔ کٹے پھٹے لاشے دیکھ دیکھ کر یہ واقعہ بھی معمولی سا ہے چھوڑیں اس واقعے کو بھول جاتے ہیں۔ کون سا ہمارے اپنے بچے تھے۔ کون سا ہم مرے ہیں چھوڑیں سو جاتے ہیں

بچے ہی تو تھے دھکے دُھکے کھا کر پل جائیں گے ہمارے بچے تو ہمارے پاس ہیں چپکے سے سو رہے ہیں۔ سونے دیتے ہیں بس چپ چاپ سو جاتے ہیں صبح آنکھ کھلے گی تو نیا واقعہ ہو گا نیا مباحثہ اور نئی ہمدردیاں۔

چلیں سو جاتے ہیں۔ پھر ایک دن آئے گا۔ جب میں میں اور آپ اپنے بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں جا رہے ہوں گے۔ ہلکی سی آواز میں ٹیپ پر گانے بج رہے ہوں گے، بچوں کے قہقہے اور ان کی ماں کی مسکراہٹ گاڑی کا اندرونی ماحول خوشگوار بنا رہی ہو گی۔ پاپا وہ دیکھیں کھیت کتنے پیارے ہیں۔ پاپا گاڑی روکیں میں نے یہاں سے چیز لینی ہے۔ بچے شور مچا دیں گے۔

بیوی کہے گی لے دیجئے بچے کتنی ضد کر رہے ہیں۔ گاڑی روک کر بچوں کو کھانے کی کچھ چیزیں لے کر دیں گے اور پھر سفر شروع ہو گا۔ بچوں کی معصومیت بھری مسکراہٹ دیکھ کر آپ کو سکون ملے گا۔ منزل کی جانب چلتی گاڑی میں کئی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہے گی۔ بیگم کی فرمائشیں بچوں کی ضد اور ذہن میں چلتے مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی۔

اتنے میں اچانک پولیس کی گاڑی آپ کی گاڑی کا راستہ روک کر کھڑی ہو گی۔ آپ گاڑی روکیں گے کہ شاید ناکہ ہے تلاشی دینی ہوگی یا پھر کاغذات چیک کروانے ہیں۔ پولیس اہلکار اسلحہ تان کر آپ کی گاڑی کی طرف بڑھیں گے۔ آپ کے بچے سہم جائیں گے۔ بیگم خوف سے کانپنے لگے گی۔ آپ ایک ساتھ دونوں قسم کی پریشانی میں مبتلا ہوں گے کہ پولیس اہلکار گاڑی کے پاس پہنچ کر آپ کو اور آپ کی بیوی کو گولیوں سے بھون دیں گے۔ آپ کے بچے گاڑی میں خون آلود ماں باپ کو دیکھ کر چیخ رہے ہوں گے۔ بیٹیاں خوف سے سکتے کے عالم میں چلی جائیں گی۔ خون ان کے معصوم ہاتھوں اور چہرے کو تر کر رہا ہو گا۔ کچھ گولیاں آپ کے بچوں کو چھو کر گزر جائیں گی یا پھر ہو سکتا ہے کچھ گولیاں معصوم پھولوں کو چیرتی نکل گئی ہوں کہ گولی کی آنکھیں تھوڑی ہوتی ہیں جو بچوں کو دیکھ کر راستہ بدل جائے گی۔

خوشیوں سے بھرے لمحات پل بھر میں دہشت ناک ہو چکے ہوں گے۔ آپ اور آپ کی اہلیہ گاڑی میں مردہ پڑے ہوں گے۔ آپ کی روح بچوں کو دیکھ رہی ہو گی آپ کی روح چاہ کر بھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنی باہوں میں نہیں بھر پائے گی۔ اگر تو بچے بھی آپ کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بن گئے تو پھر بھی خدا کا شکر ادا کریں کہ زندگی بھر پل پل سسک سسک کر مرنے سے بچ گئے اور اگر معصوم پھول زندہ بچ گئے تو کئی سال تک تو ان کی آنکھوں سے وحشت، خون، چیخیں اور سسکیاں نہیں نکل پائیں گی وہ ڈرے سہمے ہوئے پل پل سسک سسک کر زندگی گزارتے جائیں گے۔

اگر آپ کے گھر میں آپ کے بہن بھائی ماں باپ یا کوئی بڑا رہ گیا ہے تو وہ ان یتیموں بے سہاروں کو پالنے کی ذمہ داری اٹھائے گا وہ بچے اس کے گھر رہ لیں گے جہاں ان کی زندگی ان کی موت سے بھی بدتر ہو جائے گی کیونکہ کوئی جتنا بھی اچھا ہو حقیقی ماں باپ کا مقام نہیں لے سکتا۔ وہ ہر روز مریں گے ہر روز دوبارہ زندہ ہو کر بار بار مریں گے اور اسی ماحول میں زندگی گزار کر سانسوں کی قید سے رہا ہو جائیں گے۔

ان بچوں کی کیفیت کیا ہو گی اس کا احساس میں یا آپ نہیں کر سکتے۔ ہم تو بس فرض کر سکتے ہیں تخیل میں ان کی منظرکشی کر سکتے ہیں لیکن غم کا حقیقی ادراک اسی کو ہوتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین گولیوں سے چھلنی ہو جائیں اور وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کو وردی والے دہشتگردوں سے نہ بچا سکے۔

خیر چھوڑیں میرا بیٹا میرے بازو پر سر رکھ کر سو رہا ہے۔ آئیے ہم بھی سونے کی تیاری کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ کون سا ہمارے لئے کوئی پہلا واقعہ ہے۔ کون سا ہم نے صبح اس ظلم کے خلاف اٹھنا ہے ہم نے تو بس معمول کے مطابق اٹھنا ہے کہ اگلی صبح کی نئی بحث پر دلیلیں دے سکیں اپنی اپنی پارٹیوں کا دفاع کر سکیں ایک دوسرے کو گالیاں دے سکیں ایسے واقعات پر جعلی آنسو بہا سکیں اور اگلے واقعہ کا انتظار کر سکیں۔

آئیے سو جاتے ہیں کہ ہمارے مقدر میں 70 سال سے سونا ہی تو لکھا ہے اگر ہم جاگ گئے تو پھر اس دیس میں ظالم طبقات کی نیندیں حرام ہو جائیں گی اور ہم ٹھہرے ظالم طبقات کے پیروکار، اس طبقے کی پوجا کرنے والے، جان نچھاور کرنے والے اور فخر سے ظالم طبقے کی ستائش کرنے والے۔ ہم بہروپیے ہیں روز بھیس بدل کر نئے منظر کے کردار بن جاتے ہیں۔
چھوڑیں۔
آئیے سو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).