ہاتھ زخمی فیڈرخالی ہے۔ پہلی رات بھاری ہے!


جب کانٹا چبھتا تھا تو رو رو کرآسمان سرپراٹھا لیتی تھی۔ اماں اپنی سہیلیوں کو کہتی۔ اس کی زندگی کیسے گزرے گی؟
ذرا سا درد ہو یا تھوڑی سی بھوک لگے کہرام مچا دیتی ہے۔

اماں کو سہیلیاں جواب دیتیں۔ کوئی بات نہیں اتنی سی تو بچی ہے۔ بڑی ہو کر سیکھ جائے گی۔ اریبہ بھی تو سیکھ ہی گئی ہے۔
اب جب کے میں سیکھنے پر آئی ہوں تو گذشتہ بارہ گھنٹوں میں سب سیکھ لیا لیکن جنہوں نے اس سیکھے پر خوش ہونا تھا وہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔

ہاتھ زخمی ہے۔ بہن کے ہاتھ میں فیڈر خالی ہے۔ لیکن درد کہیں نہیں ہے۔ گذشتہ بارہ گھنٹوں میں اتنا کچھ ہوا۔ کہ ہاتھ اور خالی فیڈر کی جانب دھیان ہی نہ جا سکا۔ میں ابھی تک انہیں لمحات میں قید ہوں۔ ساہیوال نام شہر کے آس پاس۔ فریاد کرتا بابا۔ روتی ماں اور پھر۔ تڑ تڑ کرتی گولیوں کی کافی دیر تک کی گئی بوچھاڑ۔

خاموشی کا ایک وقفہ۔ خون ہی خون۔ ماں کی مجھ پر آخری نظر۔ باپ کا ہم بہنوں کی طرف آخری دفعہ بڑھتا ہاتھ۔ بڑی بہن اریبہ کے جسم سے نکلتا خون۔ پھر پولیس کی ہوا میں کی گئی فائرنگ۔ سڑک پر پولیس والے۔ دور بہت سی رکی ہوئی گاڑیاں۔ ٹرک کا ہارن۔ ہماری جانب آتے موٹر سائیکل کو روکتے لوگوں کی آوازیں۔

اس کے بعد سے ہم پر جیسے بے حسی کا ایک دورہ سا پڑا۔ روئی بھی نہیں۔ بھوک بھی نہیں لگی۔ ہاتھ پر تو بہت بعد میں نظر پڑی تو معلوم ہوا زخمی ہے۔ وگرنہ درد نہیں ہے۔ پولیس والے انکلز ساتھ لے گئے پھر واپس ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ گئے۔ ایسا کیوں کیا؟ کچھ خبر نہیں۔ ۔ ۔ جو جدھر کہتا ہے ہم بہنیں ادھر چل پڑتی ہیں بالکل ایک روبوٹ کی مانند۔ آنکھوں کے آگے منظر تیزی سے بدل رہے ہیں لیکن میں ان لمحات سے آگے نہیں آ پارہی جب گولیوں کی تڑ تڑ ہوئی۔ پھر خاموشی کا وقفہ۔ پھر دور سے لوگوں کی ملی جلی آوازیں بھنبناہٹ۔ چند ہارن کی آوازیں۔

بارہ گھنٹوں سے زائد کا وقت گزر گیا۔ ہم بہنوں نے آپس میں بھی بات نہیں کی۔ ۔ ہم نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اماں شادی جیسی تقریبات کے لیے ہمیں ایک جیسے کپڑے پہناتی تھیں۔ ہمارے پاس بہت سارے ایک جیسے کپڑے ہیں۔ ہمارے پاس چوڑیوں کے سیٹ بھی ایک جیسے ہیں۔ کھلونے کچھ مختلف ہیں اورکچھ ایک جیسے ہیں۔ میں فیڈر نہیں پیتی وہ پیتی ہے۔ دودھ میں جام شیریں یا روح افزا ڈلواتی ہے۔ نہ ڈالو تو بہت شور کرتی ہے۔ بہت دیر بعد ایک جگہ بیٹھے اس کے فیڈر پر نظر پڑی تو وہ خالی ہے۔ بہت دیر سے خالی ہے لیکن وہ خاموش ہے۔ کوئی تقاضا نہیں کوئی فرمائش نہیں۔ کیا وہ بھی اچانک سمجھدار اور بڑی ہو گئی ہے۔ بالکل اریبہ کی طرح۔

کچھ لوگ ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد ماردیے گئے ہیں۔ جبکہ میری اماں بابا بہن اور ڈرائیور کے نام تو کچھ اور ہیں۔
ہم سے لوگ بار بار آ کر پوچھتے ہیں کیا ہوا۔ مرنے والے کون تھے؟ میں انہیں بتاتی ہوں کہ وہ میرے اماں بابا اور بہن ہیں۔ ان کے نام بھی بتاتی ہوں تاکہ لوگ ان کا نام صحیح طرح سے بولیں دہشت گرد نہ بولیں۔

پہلی رات بہت بھاری ہے۔ شاید چند گھنٹوں کی نیند کے بعد ذہن میں گولیوں کی تڑ تڑ مدھم ہو جائے۔ میں کبھی مسلسل اتنی دیر تک نہیں جاگی۔ بھائی کا کچھ پتہ نہیں۔ کافی دیر سے نظر نہیں آیا۔ کبھی اتنی تیزی سے منظر بدلتے نہیں دیکھے۔ کبھی اتنے اجنبی چہرے نہیں دیکھے۔ کبھی اتنے کیمرے نہیں دیکھے۔ کبھی اتنے سوالات کا سامنا نہیں کیا۔ نیند کیسے آئے؟

ابھی نیند آیا چاہتی تھی۔ آنکھیں بھاری ہو گئیں۔ لیکن پھر اچانک بہت سارا شور ہوا ہے۔ بہت سی گاڑیوں کے ہوٹر۔ وارڈ میں لوگ بھاگ رہے ہیں۔ ایک نرس دوسری نرس کو بتا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ آیا ہے۔ سب ہسپتال کی ترتیب درست کرنے میں بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ میری نیند پھر اڑ گئی ہے۔ ایک انکل لوگوں کے جھرمٹ میں میری طرف آ رہے ہیں۔ ہمارے رشتہ دار ان کو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بس انصاف چاہیے۔

مجھے نہیں معلوم انصاف کیا ہوتا ہے؟ لیکن مجھ سے پوچھتے تو میں بھی یہی کہتی کہ انصاف چاہیے۔ میرے رشتہ دار اگرانصاف کا لفظ کہہ رہے ہیں تو شاید یہی وہ کام ہو گا جس کے کرنے سے میرے ماں باپ اور بہن واپس آ جائیں گی۔ میں چاہتی ہوں اماں اور بابا جلد واپس آئیں تا کہ ان کو یہ بہت ساری باتیں بتاؤں کہ آج کیا کچھ ہوا۔

مجھے اب نیند بھی آ جائے گی کیونکہ انصاف ہو جائے گا۔ شاید میں اٹھوں تو اماں واپس آ چکی ہوں۔ مجھے یقین ہے اماں واپس آ چکی ہوں گی کیونکہ بڑے افسر صاحب وزیر اعلیٰ نے سینے پر ہاتھ رکھ کر میرے رشتہ داروں کو کہا ہے کہ آپ کے ساتھ انصاف ہو گا۔ وہ میری طرف دیکھ کر سب کو یقین دلا رہے تھے۔

دادی نہیں آئی۔ سب رشتہ دار آ گئے وہ نہیں آئی۔ میں نے کسی سے پوچھا بھی نہیں۔ بیمار تو وہ رہتی ہی ہیں شاید اب زیادہ بیمار ہوں گی۔ کوئی بات نہیں جب میں سو کر اٹھوں گی تو انصاف ہو چکا ہو گا۔ میں اماں اور بابا کو ڈھیر ساری باتیں بتاؤں گی۔ گھر جا کر علحدہ سے دادی کو بھی ساری باتیں سناؤں گی۔ اپنا بھالو جس کو غلطی سے صحن میں رکھ آئی تھی (اس پر اماں سے راستے میں آتے ہوئے ڈانٹ بھی کھائی) کو اندر اپنے بستر پر رکھوں گی اور یہ ساری باتیں بتاؤں گی۔ میری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں۔ اندھیرا چھا رہا ہے۔ جب اٹھوں گی توانصاف ہو چکا ہو گا۔ اماں بابا واپس آچکے ہوں گے۔

ہاتھ زخمی ہیں لیکن اماں آئیں گی تو درد ہو گا۔ درد ہو گا تو جی بھر کو رو ؤں گی
پھر اماں سہیلیوں کو کہے گی۔ یہ زندگی کیسے گزارے گی ذرا سا درد تو اس سے برداشت نہیں ہوتا۔

سامنے چھوٹی بہن سو چکی ہے۔ خالی فیڈر اس کے ہاتھ میں ہے۔
نیند آ رہی ہے۔
نیند آ رہی ہے۔ نیند آ جائے گی۔
اٹھوں گی تو انصاف ہو چکا ہو گا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik