سانحہ ساہیوال۔ زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے


آنکھیں بند کریں ایک لمحے کو اور یہ منظر فرض کریں کہ آپ اپنے بھائی کی شادی پر جانے کے لئے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں اور راستے میں پولیس کی گاڑی آپ پر فائرنگ کر کے آپ کے بچوں کے سامنے آپ کو مار ڈالتی ہے۔ مرنے سے چند لمحے پہلے آپ کیا سوچ رہے ہوں گے؟ چلیں نہیں فرض ہو رہا اگر آپ سے تو ایک اور منظر پہ کوشش کریں۔ آپ کا بچپن۔ آپ کی آنکھوں کا سامنے اچانک وہ پولیس جس کے بارے میں آپ کا ننھا ذہن بس یہ جانتا تھا کہ وہ آپ کے محافظ ہیں، آپ کے والد کو گولیوں سے بھون ڈالتی ہے۔ آپ ساری عمر اس پولیس اور سرکار کے بارے میں کیا احساسات رکھیں گے؟ رہنے دیں۔ کچھ نہ فرض کریں۔ کچھ دلخراش واقعات فرض کرنا بھی نا ممکن ہے۔

اسلامی مملکت پاکستان میں دن دیہاڑے سرعام ننھے بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا گیا جب کہ اسلام وہ دین ہے جو ایک جانور کو بھی دوسرے جانور کا سامنے ذبح کرنے سے منع کرتا ہے کہ جانور کی دل آزاری نہ ہو۔ کیا وحشی درندوں سے بھی بدتر ہو چکی ہے پنجاب پولیس؟ پاکستان تحریکِ انصاف جس نے پولیس نظام کو بدلنے کا خواب دکھایا تھا ابھی تک ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھا سکی پولیس میں اصلاحات کے لیے۔

پاکستان وہ بد نصیب دھرتی ہے جہاں حکومتیں بدلنے سے حالات نہیں بدلتے۔ شہباز شریف کے دامن پر ماڈل ٹاؤن کے ظلم کا دھبہ ہے تو آصف زرداری نقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انوار کی پشت پناہی کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اب پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ساہیوال کا دردناک واقع۔ ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات سے یہ شبہ بھی ہوتا ہے کے پولیس سے ٹارگٹ پہچاننے میں غلطی ہوئی ہے۔ اگر ایسا اہے تو یہ مزید خوفناک امر ہے کہ ایک طرف بے گناہوں کی جان لے لی گئی تو دوسری طرف اصل دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

اس واقعہ کا کسی بھی رخ سے تجزیہ کر لیں ایک بات تو حتمی ہے کہ ہماری پولیس انتہائی غیر ذمہ دار اور اپنی شعبہ وارانہ صلاحیتوں سے عاری ہے۔ انہیں درندے سے انسان نہ بنایا گیا تو ایسے واقعات کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جلد از جلد پولیس میں اصلاحات کا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پر بھی اس سلسلے میں غفلت کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ مانا کہ پولیس کا محکمہ ازلوں سے بدتری اور خرابی کا شکار ہے مگر موجودہ حکومت کم از کم ایک سادہ حکم سے ان جعلی پولیس مقابلوں پر پابندی لگا سکتی تھی جو گذشتہ حکومتوں کی میراث ہیں۔

تحریکِ انصاف کے دور میں ہونے والے اس واقعے کے بعد فوری انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کے بعد تحریکِ انصاف کو اپنا نام بدل لینا چاہیے۔ عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کہا تھا کہ پولیس کی بجائے وزیرِ اعلیٰ پنجاب ذمہ دار ہیں جن کے ماتحت پنجاب پولیس کام کرتی ہے لہٰذا پنجاب حکومت کو اس ظلم پر فوری مستعفی ہونا چاہیے۔ خان صاحب فوری اس معاملے کی حقیقت عوام کے سامنے لائیں یا پنجاب حکومت ختم کر کے وزیرِ اعلیٰ کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جائے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ابھی تک سی ٹی ڈی سانحہ ساہیوال پر بار بار اپنا موقف بدل چکی ہے۔ ابھی تک کوئی حتمی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ چلیں فرض کر لیں کہ مرنے والے دہشت گرد تھے واقعہ کی ویڈیوز کے مطابق وہ نہتے تھے اور سرنڈر کر رہے تھے، انہیں گرفتار کرنے کی بجائے سرِ عام عوام کے سامنے اور ان کے بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالنے کا کیا مطلب ہے؟ کسے خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے؟ یا بس عوام کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ وہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہیں۔

جب بھی ریاست کا دل کرے اٹھ کے کسی کو بھی اس کے ننھے معصوم بچوں کے سامنے گولیوں سے اڑا دے۔ آج تک کسی جعلی پولیس مقابلے کی حقیقت سامنے نہیں لائی گئی۔ عوام اور مرنے والوں کا خاندانوں کو وقتی لالی پاپ سے بہلایا گیا ہے ہمیشہ۔ سب سے زیادہ جعلی پولیس مقابلے شہباز شریف کے ادوارِ حکومت میں کیے گئے۔ اگر تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی وہی سب ہونا ہے تو اس قوم کی شبِ ظلمت ختم ہونا محض ایک خواب ہی رہے گا۔ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟ شاید سچ کہہ گئے ہیں فیض صاحب میرے دیس کے بارے میں۔

زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).