پنجاب کی قسمت: اندھا بادشاہ اور بہرہ وزیر


آج کافی دنوں کے بعد ساہیوال کے واقعے نے جھنجھوڑ کے رکھ دیا تو قلم اٹھانے پہ مجبور ہونا پڑا ورنہ تو نئے پاکستان کی امید ٹوٹنے کے بعد لگتا تھا سب امیدیں ہی دم توڑ گئی تھیں۔ ہماری ایک دوست کہتی ہیں کہ دو سہلیاں تھیں ایک نے دوسری کو کہا میرا بچہ پیدا ہونے والا ہے اور تم مجھے کچھ پیسے ادھار دو جب بچہ ہو جائے گا میں لوٹا دوں گی۔ دوسری بولی تم پیسے بے شک لے جاؤ اور لوٹانا بھی مت لیکن ایک بات بتاؤ لٹاؤ گی کیسے تم تو کوئی ملازمت بھی نہیں کرتی۔ وہ کہنے لگی میرا شوہر کہ رہا ہے کہ وہ لوٹا دے گا۔ ہوگی کوئی میری طرح کی سادہ سی جو اعتبار کر بیٹھتی ہوگی خیر دوسری نے قہقہ لگایا اور کہا ارے پگلی جو شخص نو مہینوں میں انتظام نہہیں کر سکا وہ بھلا دو ماہ میں کیسے کرے گا۔ یہی بات ہے اپنے بزدار صاحب کی جو آج تک اپنے گاؤں کی بجلی نہیں لگوا سکا وہ پنجاب خاک چلائے گا۔ اتنا ہوتا تو اپنے خرچے سے ہی بجلی لگوا دی ہوتی۔ پردیس میں اپنے ملک سے کچھ زیادہ ہی پیار ہوتا ہے۔

بچوں سے گپ شپ ہورہی تھی تو میں نے کہا آپ لوگ ایک دو سال پاکستان جا کر پڑھائی کرتے تو اچھا تھا اپنا کلچر، اپنا ماحول اور اپنے ملک کے دوست بناتے وہ آگے سے کہنے لگے وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ہم پاکستان کی ڈگری اگر میرٹ پہ بھی لے کر آئیں گے تو یہاں سب کو لگے گا خرید کے لائے ہیں آپ کو پتا ہے یہاں ہمارے پہ کوئی یقین نہیں کرتا مجھے چُپ ہونا پڑا یہ سن کر۔ واقعی اگر امجد سلیمی میرٹ پہ ہوتے تو کم ازکم ان کو بات کرنے کا طریقہ ضرور آتا۔ راؤ انوار جیسے لوگ اور امجد سلیمی جیسے سفارشی لگائے گئے بندوں کو کیا پتا کہ میرٹ کیا ہے، اگر راؤ انوار، ماڈل ٹاؤن کے دہشت گرد اور ساہیوال واقعے کے ذمے دار بچتے رہیں گے تو پاکستانی قوم کے بچے انصاف نہ ملنے پر طالبان اور دہشت گرد بنتے رہیں گے اور ہم باہر کے ملکوں سے پیسے لے کر اپنے ہی بندے مارتے رہیں گے کہ ہم دہشت گرد ہیں باہر پاکستان کی ساکھ خراب ہورہی ہے اور ہمارا قانون ہمارا بجٹ صرف امیر لوگوں کو کبھی پانامہ تو کبھی جیل تو کبھی این آر او دینے میں لگا رہے گا۔

دہشت گرد تب بنتے ہیں جب انصاف نہ ملے اور پاکستان میں غریب کے لئے کوئی انصاف نہیں امیر تو سیدھا جج کر لیتے ہیں اور غریب سالوں جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں مریم صاحبہ کے این آر او کی بات ہو رہی تھی تو ایک معزز آدمی فرما رہے تھے این آر او نہیں ہوا۔ ویسے ہی ضمانت ہوئی ہے کیونکہ خواتین کے لئے جیل جانا اچھی بات نہیں لیکن وہ شاید بھول رہے تھے کہ اس ملک میں غریب لوگ بھی ہیں جن کے بچے بھی جیلوں میں پیدا ہورہے ہیں کیا وہ خواتین نہیں ہیں یا غریب ہیں اس لیے۔

قانون اور ایک تعلیم نہیں ہوگی تو ہم روز پولیس کے ہاتھوں مرتے رہیں گے اور ہمارے بچے انصاف نہ ملنے پر دہشت گرد بنتے رہیں گے اور ہم دو چار دن میڈیا پہ شور ڈال کے خاموش ہو جائیں گے اور بزدار (وزیر اعلی پنجاب نہیں وزیراعلی پاک پتن شریف) اپنی چند تصویریں شیر کرتے رہیں گے اور پانچ سال بعد گاؤں کی بجلی کی طرح سوکھے نلکے کے ساتھ تصویر بنوا کر اپنی سادگی لوگوں کو دکھاتے رہیں گے اور پولیس سیاسیوں کی غلام کرپشن کرتی رہے گی کوئی پھر نئے پاکستان کا نعرہ لگا دے گا اور عوام ان کی لڑائی لڑتے رہیں گے۔ سوائے اللہ کے کوئی امید نہیں کہ پاکستان میں انصاف ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).