پنجاب کا نوحہ: ایک بار پھر پنجاب مر گیا


ہم سے پڑھا نہیں جاتا۔ اسکول کے زمانے میں پوری لائبریری صفا چٹ کرنے والی ننھی لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تیس کے پیٹے میں قدم رکھتے ہی ایک وقت ایسا آئے گا جب ہلکا پھلکا ناول پڑھنا بھی کشت لگے گا۔ شاید ڈیجیٹل دنیا واسی ہونے کا ایک نقصان یہی ہے۔ وقت ہی نہیں ہوتا کسی کی سننے کا۔ بھلے وہ کتاب ہو یا سامنے بیٹھا گرے شلوار قمیض میں ملبوس بھائی۔ بس اپنی کہنے کا زمانہ ہے۔ اس گمان کا زمانہ ہے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں وہ سب سن بھی رہے ہیں۔ ہمہ تن گوش ہیں۔ تندہی سے نوٹس بھی لے رہے ہیں۔ کبھی نہ بھولیں گے۔

ہم بھی اسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ آپ کو ہمارے تمام کالم ازبر ہوں گے۔ اپنی روزمرہ زندگی میں غالب کے شعروں کے علاوہ ہمارے کالم بھی کوٹ کرتے ہوں گے۔ لیکن ایسا تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ شاید ہوتا بھی ہو۔ ہمیں نہیں معلوم، اچھا۔

اگر اپنے گمان کی مانیں تو یہ سمجھیں گے کہ آپ کو ہمارا ایک پرانا بلاگ ’پنجاب کا نوحہ‘ یاد ہو گا۔ لکھ کر بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ کیا خبر تھی کہ اتنے عرصے کے بعد پھر سے وہی زخم کھرچنا ہو گا۔ خون رسنے لگے گا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی طرح برسے گا۔ ٹپ ٹپ ٹپکتا، چھم چھم برستا خون۔ وہی خون جو خون کو دیکھ کر جوش مارتا ہے۔ جی وہی لہو جو اگر آنکھ سے بہ ٹپکے تو جناب غالب کے نزدیک بے وقعت ہے۔

ہم پاکستان سے آسٹریلیا منتقل ہو چکے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ نئے ملک کو گھر بنانے کی کوشش کریں۔ یہاں کے باقی دیسیوں کی طرح اس نکھرے مہکے ملک سے نا آشنا نہ ہوں۔ اپنا سارا دھیان پاکستان میں ہی نہ سموئے رکھیں۔ لیکن صاحب، ہونی کو کون ٹال سکا ہے۔ خون کو خون کی دید کی لیلا رچانی ہی تھی۔ ان بچیوں کی پھٹی پھٹی آنکھیں، اس بچے سے رستا خون، ان بچوں کا ننھا دل جو خدا جانے پھر کب دھڑکے گا کہ جو اپنے ماں باپ کو اپنی نظروں کے سامنے مرتا دیکھ کر دھک رہ گیا تھا۔ اس بچی کے ہاتھ میں چھوٹا سا مگ، وہ آنکھیں جو شاید اب کبھی سوال نہ کر پائیں۔ بہت ٹوٹی پھوٹی تحریر ہے نا؟ لگتا ہے قلم ٹوٹنے کو ہے۔ زمیں تو پھٹی نہیں۔ شاید یہ بدبخت قلم ہی کسی کام آ جائے۔

یوں تو ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لیکن شادمانی کا سفر کرتے اس خاندان کے منہ میں یہ کونین کا گھونٹ تو زبردستی ٹھونسا گیا۔ ساہیوال کا کیا حال ہوا؟ قاتلوں کو کون نہیں جانتا؟ شاید آپ نہیں جانتے۔ شاید آپ کے زبان گنگ ہو گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارا قلم ٹوٹ گیا۔

پنجاب ہمیشہ سے اقتدار کا مرکز رہا ہے۔ یہ سرسوں کی لہلہاتی فصلیں، یہ نیلا آسمان۔ لیکن لگتا ہے ہر عروج کو زوال ہے۔ آج پنجاب اسی آخری سیڑھی پر کھڑا ہے۔ یہ لاشیں ان ننھے بچوں کے ماں باپ اور بوڑھی دادی کی نہیں بلکہ میرے سوہنے پنجاب کی ہے۔ یہ پھٹی پھٹی نظریں ان بچوں کی نہیں میرے پنجاب کی لاش کی ہیں جن کی بینائی جا چکی ہے۔ جو محض پتھر ہیں۔ وہ جن سے اس کی رکھوالی کی امید تھی وہ تو بارہ گھنٹے بعد آئے وہ بھی گلدستے کے ساتھ۔

اچھا کیا، قبروں پر پھول ہی تو چڑھائے جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے مدینہ کی ریاست بنانے کا دعوی کیا تھا اس وقت سکتے میں ہیں۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان بچوں کی سرپرستی ریاست کرے گی۔ جانے دیجئے امیر المومنین، یہ بچے بھی کہاں زندہ ہیں۔ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ ان پر پھولوں کی چادر چڑھائیے۔ مٹی پر عرق گلاب کا چھڑکاؤ کیجئے۔ حفاظت اور عدل آپ کے بس کا روگ نہیں۔

یہ خاندان مر گیا۔ ماں باپ مر گئے۔ دادی مر گئی۔ یہ بچے جیتے جی مر گئے۔ پنجاب بھی مر گیا۔ ہم صرف نوحہ لکھیں گے۔ ماتم کریں گے۔ اپنا کلیجہ انگاروں پر واریں گے۔ اس کرب و بلا کو خون سے سینچیں گے۔ یہ ہم ہی کریں گے۔ وارث شاہ کو قبر میں زحمت نہیں دے سکتے۔

سپہ سالار عثمان بزدار صاحب اور امیر المومنین جناب عمران خان سے التماس ہے کہ جنازے کو بڑھ چڑھ کر کندھا دیں۔ فوٹوگرافر سے گزارش ہے کہ ریڈی رہے۔ آخر تصویر سوشل میڈیا پر ڈالنی ہے۔
پنجاب کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).