ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے گلاب اور دہشت کا مذبح خانہ


یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میری تعیناتی پہلی بار ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔

یہ میرے لیے ایک خواب کے تعبیر ہونے جیسا دن تھا۔ اس سے پہلے میں کافی عرصے تک مختلف اضلاع میں بطور اسسٹنٹ کمشنر یا سب ڈویژنل مجسٹریٹ اپنے فرائض انجام دے چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے پورے ضلع کی سربراہی سونپی جا رہی تھی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اسی خوشی میں میں نے اپنی تقرری کے مختصر دفتری حکم نامے کو کئی بار پڑھ ڈالا۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ اس خوشی میں اسے بھی شریک کیا جائے جو میرے دل کے سب سے زیادہ قریب تھا اور وہ دوسرا کون ہو سکتا تھا سوائے میری شریک سفر میری نوبیاہتا بیوی رعنا کے۔  چنانچہ سٹینو سے گھر فون ملانے کو کہا۔ چند لمحات کے بعد فون کا بزر بجا۔ میں فون اٹھانے ہی لگا تھا کہ ایک خیال ذہن میں آیا اور میرا بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ میری خوشی کے چمکتے ہوئے سورج کو ایک کالی بدلی نے ڈھانپ لیا۔

’رعنا کا رد عمل کیا ہو گا؟ ‘

میری تعیناتی جس ضلع میں ہوئی تھی وہ ایک خاصا پسماندہ اور دور افتادہ ضلع تھا جو ابھی تک زندگی کی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم تھا۔ دوسری طرف رعنا ایک ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکی تھی اور انتہائی پر آسائش زندگی کی عادی رہی تھی۔ یہی سوچتے ہوئے جب میں نے فون پر رعنا کو اپنی تعیناتی کی اطلاع دی تو میرا لہجہ سرد ہونے کی حد تک متوازن اور غیر جذباتی تھا۔ لیکن میرا چمکتا ہوا دن پھرسے نکل آیا جب رعنا نے یہ خبر سن کر ایک مسرت بھرا چیخ نما نعرہ بلند کیا۔ وہ میری تعیناتی سے اتنی ہی خوش تھی جتنا کہ میں خود تھا۔ میری خوشی دو گنا ہو گئی تھی۔

میں اور رعنا ایک کمال کا جوڑا تھے۔  اگرچہ ہماری ازدواجی زندگی کی مدت ابھی تین ماہ سے بھی کم تھی لیکن اس مختصر وقت میں ہی ہم اس طرح شیر و شکر ہو گئے تھے کہ جیسے ہمارا صدیوں پرانا ساتھ ہو باوصف اس کے کہ رعنا کا تعلق متمول طبقے سے تھا جبکہ میں معاشرے کے درمیانے متوسط حصے کی نمائندگی کرتا تھا۔ ہماری اس باہم آمیزی کا تعلق محض رعنا کے بے مثال حسن و جمال سے تھا نہ تنہا میری اعلی افسری سے بلکہ یہ تو کوئی اور ہی معاملہ تھا جسے صرف ہمارے ساتھ ساتھ دھڑکتے ہوئے دل جانتے تھے۔

میں اوائل مارچ کا وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب میں اور رعنا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے پہلی بار ضلع کے ڈی۔ سی ہاوس کے وسیع و عریض مرکزی کمرے میں داخل ہوئے تھا اور اس سو سال سے بھی زیادہ پرانی عمارت کے قدیم شکوہ اور بارعب حسن نے ہم دونوں کو کچھ دیر کے لئے مبہوت کر دیا تھا۔ اور پھر وہ دن جب ہمارا بوڑھا مالی فتح ہمیں ڈی۔ سی ہاوس کے عقبی حصے میں واقع گلابوں کے بغیچے میں لے گیا تھا۔ ان گلابوں کو فتح نے حقیقتاً اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔

اس خوشگوار دھوپ بھری صبح میں سبز گھاس پر دور تک لہلہاتے، جھومتے اور مہکتے ہوئے سرخ گلابوں کی قطاریں ایسا منظر پیش کرتی تھیں جو کسی کو بھی مدہوش کرنے کے لیے کافی تھا۔ فضا خوشبو سے معمور تھی۔ رعنا ان گلابوں کو اپنی شاخسار باہوں میں بھر لینے کو لپکی اور لڑکھڑا گئی تھی۔ اگر میں تھام نہ لیتا تو شاید وہ گر ہی پڑتی۔ سرخ گلابوں کے ساتھ اپنی محبت میں رعنا کو یوں شریک پا کر فتح کی ضعیف آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور مٹی میں جذب ہو گیا۔ اسے کیا پتہ تھا کہ ہمارے لیے تو یہ دن ہی گلابوں سے لپٹ جانے کے دن تھے۔

یہ شہر جہاں میری تعیناتی کی گئی تھى ملک کے چاروں صوبوں کے عین سنگم پر واقع تھا اور چاروں صوبوں کی ثقافتوں کے رنگ، خوشبوئیں اور ذائقے لیے ہوئے تھا۔ اسی لئے ہم اسے پیار سے چھوٹا پاکستان بھی کہتے تھے۔  لیکن یہ چھوٹا پاکستان بری طرح غربت اور پسماندگی کا شکار تھا۔ زراعت انتہائی محدود اور مخدوش حالت میں تھی۔ تجارت محض برائے نام اور صنعت (سوائے گھریلو دستکاریوں کے ) قطعی ناپید تھی۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے نسبتا بڑے متصلہ اضلاع میں محنت مزدوری کی غرض سے جاتے اور شام ڈھلے لوٹتے تھے۔

لیکن اس قدر غربت کے باجود اس علاقے میں جرائم کی شرح حیران کن حد تک کم تھی اور وہ جرائم بھی زیادہ تر معمولی نوعیت کے ہوتے تھے۔  سنگین جرائم اس علاقے میں کبھی شاذ و نادر ہی دیکھنے سننے میں آتے تھے۔  وہ لوگ جن سے مجھے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران واسطہ پڑتا تھا مجھے بڑے اچھے لگتے تھے۔  سادہ، خوش باش، اپنی محرومیوں پر قانع اور حال مست رہنے والے لوگ۔

مجموعی طور پر ضلع میں امن و امان کی حالت تسلی بخش تھی۔ معمول کے ترقیاتی کام اپنی رفتار سے جاری رہتے تھے جن کو جلد مکمل کروانے میں میں خاص دلچسپی لیتا تھا۔ ملک میں عام انتخابات حال ہی میں ہوئے تھے۔  اقتدار کی پھسلواں گھاٹی پر صوبے کی حکمران جماعت ابھی پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ لہذا اس ضلع کی حد تک سیاسی منظر نامے پر بھی کوئی ہلچل نہ تھی۔ مجموعی طور پر یہاں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔

معمول کے دفتری اور عدالتی امور نمٹا کر میں عموما بعد دوپہر یا سہ پہر تک فارغ ہو جاتا اور سیدھا گھر کا رخ کرتا جہاں رعنا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ میری منتظر ہوتی تھی۔ اس شانے سے اس شانے تک سیہ زلفیں بکھرائے رنگوں اور خوشبووں کی قوس قزح کی صورت جب وہ میرا استقبال کرتی تو اس کی روشن آنکھیں اور بھی جگمگا اٹھتیں اور گالوں کے گڑھے اور نمایاں ہو جاتے۔  ہم دوپہر کا کھانا اکثر اکٹھے کھاتے اور شام کی چائے تقریبا روزانہ ساتھ پیتے تھے۔

اس کے لئے رعنا نے گلابوں کے اس تختے کے قریب، کہ جس نام اس نے چیلسی رکھ چھوڑا تھا، ایک قطعہ مخصوص کرا دیا تھا۔ ہم چائے کے بعد بھی دیر شام تک یہاں بیٹھتے اور گپ لگاتے تھے۔  کبھی کبھی رات کا کھانا بھی یہیں لگوا لیتے تھے۔  رعنا کو قدرت نے محض حسین صورت سے ہی نہیں نوازا تھا بلکہ وہ بلا کی ذہین اور صاحب مطالعہ بھی تھی۔ اس کے ساتھ گپ لگانے کا مزہ آ جاتا۔ اس کے کئی دلچسپ تبصرے اور شرارت بھرے جملے ہفتوں میرے ساتھ چلتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7