ساہیوال: کیا پنجاب حکومت جھوٹ بول رہی ہے؟


لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے ہی گاڑی میں سوار مارے گئے ایک شخص کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور جو کہا ہے اس کا خلاصہ یہ کہ ”ذیشان کے گھر میں دہشتگرد موجود ہونے کے مصدقہ شواہد سامنے آئے ہیں، ذیشان کی کار دہشتگردوں کے استعمال میں رہی ہے، سی ٹی ڈی کی ٹیم کو کہا گیا کہ کار کو روکا جائے۔ ‏اگر دہشتگردوں کا پیچھا نہ کیا جاتا تو بڑی تباہی پھیلا سکتے تھے۔ ان دہشتگردوں کو روکنا نہایت ضروری تھا۔ خودکش جیکٹ پہنی نہیں تھی گاڑی میں رکھی ہوئی تھی۔ ذیشان کی گاڑی سے 2 خودکش جیکٹ، دستی بم اوراسلحہ بر آمد ہوا ہے۔ 18 جنوری کو تصدیق ہوئی کہ ذیشان دہشتگردوں کے لیے کام کررہا تھا۔ “

اس سے پہلے سی ٹی ڈی کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ یہ افراد بچوں کو اغوا کر کے لے جا رہے تھے۔ پھر عینی شاہدین کے بیانات اور ویڈیوز آئیں تو پتہ چلا کہ نہیں یہ بچے اغوا کرنے والے نہیں بلکہ داعش کے دہشت گرد تھے اور چار دہشت گرد مار ڈالے گئے جن میں دو عورتیں بھی شامل ہیں۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ نہیں ایک شخص دہشت گرد تھا۔

ان سارے سرکاری بیانات کو نو برس کے عمیر کے ہسپتال میں لئے گئے انٹرویو نے اڑا کر رکھ دیا ہے۔ بطور عینی شاہد اس نے بتایا کہ مرنے والے انہیں اغوا کر کے نہیں لے جا رہے تھے بلکہ ان کے والدین تھے۔ انہوں نے گاڑی سے کوئی فائرنگ نہیں کی بلکہ یہ تو منتیں کر رہے تھے کہ ہمیں معاف کر دو، پیسے لے لو، ہماری جان بخش دو۔ پوری پنجاب حکومت کے تمام بیانات پر اس اکیلے بچے کا بیان بھاری ہے۔

دوسری طرف جس ذیشان کے بارے میں اب دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس کے گھر میں دہشت گردوں کے موجود ہونے کے مصدقہ شواہد ملے ہیں، تو کیا ثبوت ہے کہ ان دہشت گردوں سے اس کے چھوٹے بھائی احتشام کا تعلق نہیں تھا جو ڈولفن پولیس میں ملازم ہے۔ 18 جنوری کو ذیشان کے دہشت گردوں سے تعلق کی تصدیق کر دی گئی۔

اب جس طرح وقوعے کی ویڈیو سامنے آئی ہے، اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سی ٹی ڈی نے گاڑی کے مسافروں کو مارنے کے لئے پوائنٹ بلینک رینج پر فائرنگ کی۔ کم از کم دس فائروں کی آواز سنی جا سکتی ہے جو نہایت اطمینان سے گاڑی کے ساتھ کھڑے ہو کر کیے گئے۔ اگر ذیشان کو مارنا ہی مطلوب تھا تو اسے اس کے گلی محلے میں ہی کیوں نہیں مار دیا گیا؟ کیوں بچوں کی موجودگی میں مارا گیا؟ جبکہ اس طرح کے کیسز میں متعلقہ شخص کو مارنے کی جگہ حراست میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس سے اس کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔

پولیس لاشوں کو گاڑی میں چھوڑ کر غائب ہو گئی۔ کسی نے ویڈیو بنائی جس میں عینی شاہدین بتا رہے ہیں کہ مقتولین کے پاس کوئی پستول تک نہیں تھا۔ پھر انہوں نے کیسے سی ٹی ڈی پر فائرنگ کر دی؟ بچے کے بیان میں اس فائرنگ کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ گاڑی میں واقعی یہ سب خود کش جیکٹیں اور دستی بم وغیرہ تھے تو سی ٹی ڈی اس سب کو لاشوں سمیت چھوڑ کر غائب کیوں ہو گئی؟ جہاں تک گاڑی سے اب ان کے برآمد ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے تو کراچی کا وہ مذاق یاد آ جاتا ہے جس میں راؤ انوار جیسے فرض شناس اہلکار پانی کی ٹینکی سے ٹینک اور توپ بھی برآمد کرنے پر تل جاتے تھے۔

تحریک انصاف کی پنجاب حکومت اپنے اہلکاروں کو بچانے کے لئے اپنی کریڈیبلٹی تباہ کر رہی ہے۔ اس کے بیانات سے پہلے ہی دکھائی دے رہا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا آئے گی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ معاملہ ذرا ٹھنڈا ہو گا تو عینی شاہدین ”بغیر کسی دباؤ اور خوف کے“ اپنے بیانات سے پھر جائیں گے۔ پھر پتہ چلے گا کہ مقتولین کے ورثا نے ”بغیر کسی دباؤ اور خوف کے“ قاتلوں کو قصاص و دیت کے قانون کے تحت معاف کر دیا ہے۔ مقتول دفن ہو جائیں گے۔ اور ان کے ساتھ ہی ریاست کی کریڈیبلٹی بھی دفن ہو جائے گی۔ باقی سب کچھ تو سمجھ آتا ہے، بس یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ حکومت اپنے لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے یا مروانے کی؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar