سانحہ ساہیوال اور اے پی ایس پشاور حملہ


سانحہ ساہیوال پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور جس طرح اس واقعہ پر عمران مخالف صحافی، سیاسی اور سماجی شخصیات کا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور پم کبھی بھی محفوظ نہیں ہو پاییں گے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک سانحے کا کسی دوسرے سانحہ کے ساتھ موازنہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ سانحہ تو اپنی نوعیت کا آپ ہے کیونکہ اس کا موازنہ نہ تو ناکوں پہ نہ رکنے والے افراد کے مارے جانے کے واقعات سے کیا جا سکتا ہے، نہ ہی جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں میں مارے جانے والے افراد سے کیا جا سکتا ہے۔ ان واقعات سے بھی نہیں کیا جا سکتا جن میں پولیس کسی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارتی ہے اور سارے گھر والوں کو بلا تخصیص عمر اور جنس گرفتار کر کے تھانے لے آتی ہے۔ گویا یہ حالیہ سانحہ عام شہریوں کو محکوم، مجبور اور خوف زدہ محسوس کروانے کے نئے طریقے متعارف کروانے کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اے پاکستانی قوم، تم شہریوں پہ مشتمل قوم نہیں ہو بلکہ تم ایک رعایا ہو، جن پر ہم جیسے ادارے مسلط ہیں جو جب چاہیں جہاں چاہیں کسی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ رہی بات تمہارے وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلی کا نوٹس لے لینے کی، تو جناب یہ نوٹس ہمارے دیکھے بھالے ہیں۔

مختلف واقعات میں ہر سال سینکڑوں نوٹس لیے جاتے ہیں، کیا ہوتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ تبادلہ۔ بلکہ جب اس طرح کے کارنامے کی بنیاد پر کسی کا تبادلہ کیا جاتا ہے، تو وہ افسر ہیرو کے انداز میں نئی جگہ جاتا ہے۔ نوٹس لیے جانے کے بعد بھی تو ان کی تفتیش ہی کی جاتی ہے نا، جو کہ ان ہی کے پیٹی بھائی کرتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ وہ بے گناہ ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی بڑا افسر ہو، تو دورانِ تفتیش اور عدالتوں کے سامنے پیشیاں بھگتنے کے ڈراموں کے دوران ایسا حفاظتی پروٹوکول پاتا ہے کہ بڑے سے بڑے لیڈر کا پروٹوکول بھی شرما جائے۔

یہ وقت اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اس پر سابقہ و موجودہ حکمرانوں کی نااہلی یا اہلیت کا موازنہ کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے پاس اس طرح کے واقعات کی ایک لمبی تاریخ ہے، کس کا کس سے موازنہ کریں گے۔ کارساز، ماڈل ٹاؤن، ڈی چوک وغیرہ تو خیر اس واقعہ سے بالکل ہی مختلف تھے۔ وہ سیاسی مخالفین کو تتر بتر کرنے کے لیے ایجاد کیے گئے تھے۔ لوگوں کو احتجاج میں شامل ہونے سے روکنے کا ایک حیلہ تھے، لیکن سانحہ ساہیوال میں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے متاثرین تو عام سے گھریلو لوگ تھے ، جو ایک شادی کی تقریب میں شامل ہونے جا رہے تھے، جن کا انتظار نہ جانے کتنی شدت سے کیا جاتا ہو گا۔ ننھے منے بچوں نے اپنے چچا کی شادی پہ نجانے کس کس طرح سے خوشیاں منانا تھیں۔ جن کو چچا کی شادی پر سرکاری اہلکاروں نے یتیمی اور عمر بھر کے لیے خوف کا تحفہ دیا۔

اگر اس واقعہ کا موازنہ کسی واقعہ سے کیا ہی جانا چاہیے تو وہ سانحہ اے پی ایس پشاور ہے کیونکہ اس سانحہ نے تمام اداروں اور سیاسی قوتوں کو دہشت گردوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اسی طرح یہ سانحہ تمام ریاستی اداروں کو پولیس اور قانون نافز کرنے والے دیگر اداروں کو مجرمانہ ذہنیت کے حامل افسران سے پاک کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ کسی قسم کی بے قاعدگی یا غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والے اہلکاروں کا تبادلہ مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہو گا۔ اور ان کو دیت وغیرہ کے غلط استعمال سے معافی دلا کر ان کے عہدوں پر بحال کرنا یا سزا میں تخفیف کروانا لواحقین کے لیے اپنے پیاروں کے کھو دینے سے بھی بڑا دکھ ہوگا۔

سانحہ ساہیوال نااہلی یا پیشہ ورانہ غفلت نہیں بلکہ اہلکاروں کی بیمار ذہنیت کی علامت دکھائی دیتا ہے۔ اگر ان افسران کا طبی معاینہ کیا جائے تو قوی امکان ہے کہ ان کے خون کے نمونوں میں منشیات کے استعمال کے شواہد بھی ملیں۔ بہرحال یہ وقت ہے پولیس فورس کو جرایم پیشہ افسران سے پاک کرنے کا، فورس کی تربیت کرنے کا، اور تادیبی کاروائی اس قدر سخت کرنے کا کہ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر بھی ان کو ملازمت سے برخواست کیا جا سکے اور انکے ڈوپ ٹیسٹ تسلسل سے ہوتے رہنے چاہیں اور جونہی منشیات کے استعمال کے ثبوت ملیں، ان کو فوراً ملازمت سے فارغ کر دینا چاہیے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال سے انسان کی دماغی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ایسی بیمار ذہنیت رکھنے والے اہل کار اپنے منصب کو ذمہ داری کی بجائے ایک طاقت سمجھتے ہیں۔ جب طاقت کے اس نشے میں حکامِ بالا کی شاباش، چشم پوشی اور منشیات بھی شامل ہو جاییں تو وہ باؤلے کتوں سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔

حکومت سے خصوصی درخواست ہے کہ خدا کا واسطہ اب لواحقین کو دیے جانے والے ہرجانے کو ہرجانہ ہی کہیں، امداد نہیں، کیونکہ یہ امداد ہرگز نہیں ہو گی۔ اب اپنی نفسیات کو بھی درست کر لیجیے کیونکہ نفسیاتی طور پر ٹھیک حکمران ہی ٹھیک کام کیا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).