احسان کرتے جو تین گولیاں اور چلا دیتے


ایک تقریب میں مصروف ہونے باعث کافی دیر تک سوشل میڈیا نہیں دیکھا تھا۔ رات آٹھ بجے کے قریب دوست کا فون آیا تو اس نے ساہیوال واقعے سے متعلق آگاہ کیا، واقعے کی سنگینی، حساسیت اور بربریت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ رات گئے موبائل کا ڈیٹا آن کیا تو دھڑا دھڑ وٹس ایپ، ٹویٹر نوٹیفیکیشن آنے شروع ہوگئے، فیسبک چیک کیا تو لگا جیسے ایک قیامت آ کر گزر گئی ہو۔ اس دوران چونکہ انٹرٹینمنٹ سے بھرپور تقریب میں تھا۔ سارا سحر ندامت میں بدل گیا۔

کئی بار لکھا مگر مٹا دیا۔ سوچیں مفلوج ہو گئیں۔ تذبذب نے آن گھیرا۔ وہی رت جب سارا ملک زینب کے یوں چلے جانے پر سوگوار تھا۔ ہمارے وطن کو یہ کس کی نظر لگ گئی جو پے در پے حادثات دستک دیتے ہیں۔ دہشت میں ہماری فوج اور پولیس کی ان گنت قربانیاں۔ آنکھوں سامنے خوف کا ایک ہیولا بن کر گھومنے لگیں۔ بے یقینی، خوف، ندامت کی ملی جلی کیفیت سے دوچار عجب حال ہے۔ یہ سوشل میڈیا بھی کیا عجب مصیبت بن گئی ہے۔

کسی ایک کیفیت میں رہنے ہی نہیں دیتا۔ تصویروں کے کئی کئی رخ سامنے لا کر کس الجھن میں پھنسا دیتا ہے۔ حکومتی سائیڈ سے موقف آیا واقعے میں جاں بحق خاندان خطرناک دہشت گرد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔ بچوں اور عورتوں کو ڈھال بنا کر استعمال کرنے کے خدشے کا بھی کہا گیا۔ تمہاری قربانیاں۔ بے یقینی کی کیفیت بھی سچ۔ تم نے جو کہا بلا چوں چراں مان بھی لیا، سچ کیا ہے؟ ابھی تحقیق ہونا باقی، جو کہو گے مان لیں گے کیوں کہ تمہاری قربانیاں بھی احساس زیاں کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

ہزاروں بے گناہ ہم وطنوں کی شہادتیں دہشت گردی کے نام سے لرزاں کر دیتی ہیں۔ مگر کیا یہ بھی کوئی طریقہ ہے۔ دنیا کا کوئی قانون، کوئی اخلاقی نظام، کوئی ضابطہ کیا ایسی بربریت کی اجازت دیتا ہے۔ کہا گیا پہلے کار سے فائرنگ کی گئی۔ بچ جانے والے بچوں نے اور ہی داستان سنائی۔ نہیں صاحب ہمیں کسی دہشت گرد کی موت پہ دکھ نہیں ہو سکتا۔ جتنے گھاؤ ہم کھا چکے دہشت کے سوداگروں کی موت پہ تو ہمارے زخموں کو آرام ملتا ہے۔ پھر یہ فضا اتنی سوگوار کیوں۔ نہیں نہیں کسی دہشت گرد کی موت پر ہمیں ملال ہو ہی نہیں سکتا۔

سرنڈر کردینے والوں پر یوں گولیاں چلانے کی کہیں سے کوئی مثال ملے تو دے دو، کہ ہم تم پر اپنے اعتماد کو گنوانا نہیں چاہتے۔ کارروائی میں ملوث اہلکاروں کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، انہیں جو کہا گیا وہ کر گزرے، کہا کس نے؟ انسانی جانوں کا معاملہ تھا، آپریشن کی اجازت کس نے دی؟ کیا صورت حال کی نزاکت کا ادراک نہیں تھا؟ ”پولیس جب کسی بے گناہ کو قتل کرتی ہے تو اس کے ذمہ دار حکمران ہوتے ہیں“ کوئی یہ بھی کہا کرتا تھا۔ قوم منتظر ہے مرنے والوں کو دہشت گرد ثابت کرو ورنہ الزام اپنے سر لو۔

آہ! ننھی بچیاں، ہاتھ میں فیڈر، سات آٹھ سالہ بچہ، قیامت سے پہلے قیامت بھگت گئے۔ رو رو کر آنکھیں خشک ہو چکیں، ”پاپا نے کہا پیسے لے لو، ہمیں گولی نہ مارو“ ہائے ہائے ہائے۔ روتے روتے ہچکی بندھ چکی، بیٹیاں تو اتنی چھوٹی کہ غم سے ہی ناواقف، زندگی کا لمبا جان گسل سفر کیسے طے ہو پائے گا، جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی ڈھارس، ان کا سایہ، ان کی جنت، دن دیہاڑے چھین لی گئی۔ ہائے ظالمو۔ کم سن بچے سے اسے لاڈلے ہونے کا احساس دلانے والی 13 سالہ آپی چھین کر لمحوں میں اسے بچپن سے محروم کر دیا۔

ہائے ہائے ہائے۔ نہیں احساس تو کسی یتیم، مسکین کے احساسات کو محسوس کر کے دیکھو۔ بچپن، لڑکپن اور جوانی کیا ہوتی ہے۔ ظالموں تم نے تو ایک لمحے میں معصوم کو بچپن، لڑکپن اور جوانی سے محروم کر کے دو ننھی بہنوں کا سرپرست بنا دیا۔ ہائے، جسے اپنی خواہشات کی عدم تکمیل پہ رونے کے سوا رونا آتا ہی نہ تھا۔ کیا ظلم ڈھایا۔ زندگی بھر پل سراط کا مسافر بنا دیا۔ ہائے ہائے ہائے، دنیا جہاں کا انصاف ان کے قدموں میں لا کر بھی رکھ دو تو کیا۔

ان پہ جو گزر گئی اور جو زندگی بھر گزرے گی اس کا مداوا کر پائے گا۔ نہیں نہیں نہیں۔ جو کرب زندگی بھر ان تین ننھوں کو بچھو بن کر ڈستا رہے گا اس سے تو بہتر تھا تین گولیاں۔ صرف تین اور گولیاں چلا دیتے۔ یہ تم نے ظلم سے بڑا کیا ظلم کر دیا؟ ریاست مدینہ کے والی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بچوں کے سامنے جانور کی قربانی سے بھی منع کر رکھا ہے پھر ریاست مدینہ کے نام لیواؤں کے دیش میں ایسی ننگی بربریت کا کیا جواز۔

آسمان گرا نہ زمین پھٹی۔ تین ننھی جانوں کے سامنے سیاہ کالی رات۔ دم توڑتی ساری امیدیں۔ آہ! ماں باپ سے ملنے کی حسرت، ماں کی ایک لوری، گود کا لمس، باپ کی محبت، سایہ عافیت۔ نہیں نہیں انصاف کرو یا نہ کرو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ 22 کروڑ عوام کو ان کا مجرم ٹھہرا دو۔ سب کو پھانسی بھی چڑھا دو تو کیا ان تین ننھی جانوں کا مداوا کر پاؤ گے۔ زیاں کا کوئیمداوا ممکن ہو تو کر دو بھلے انصاف رہنے دو، نہیں نہیں، تم نے انہیں زندہ ہی کیوں رکھا، یہ ظلم کیوں ڈھایا۔ ان پہ احسان کرتے جو تین گولیاں اور چلا دیتے۔ انہیں تمہاری استعفوں سے فرق پڑھنے والا ہے نہ کسی کو نشان عبرت بنانے سے۔ جو کرنا ہے کرو یہ تو تمہاری مجبوری ہو سکتی ہے، تمہاری سیاست کا تقاضا ہو سکتا ہے۔ جو کرنا ہے کرو مگر تم ان پہ جو قیامت ڈھا گئے اس کا مداوا کہیں نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).