سو دن کا بھوت اور مستعد بڑھئی


 

ایک غریب کی بیٹی کی شادی سر پر آگئی، کھیتوں میں ایک ہی شیشم کا درخت تھا سو وہ کاٹا اور لے کر گاؤں کے واحد بڑھئی کے پاس چل دیا۔ اور کہا کہ اس شیشم کا فرنیچر بنا دو میری بیٹی کی شادی کے دن قریب ہیں۔ بڑھئی ہر کام وقت پر کرنے کا کچھ زیادہ ہی عادی تھا، غریب کسان بھی تسلی سن کر واپس چل دیا اور جس دن بیٹی کی شادی کی تاریخ مقرر کر لی اسی دن بڑھئی کے پاس پہنچا جو دکان کے باہر پڑے اسی شیشم کے درخت پر بیٹھا سگریٹ ہی رہا تھا۔

کسان نے کہا فرنیچر نہیں بنا ابھی تک؟ میں نے کہا بھی تھا کہ بیٹی کی شادی سر پر ہے اور آج تو دن بھی رکھ آیا، بڑھئی نے بڑے آرام سے کہا کہ کوئی بات نہیں فرنیچر تو بیٹی کے گھر بھی پہنچا دوں گا۔ بس تیار کر لوں۔ غریب کسان ایک بار پھر تسلی پا کر واپس پلٹ گیا۔ بیٹی کی شادی ہوگئی، اور اس بات کو بھی عرصہ گزر گیا، نہ فرنیچر بنا اور ہی گھر پہنچا۔ بیٹی کے گھر بھی بیٹی پیدا ہوگئی تو کسان پھر بھاگا اور بڑھئی کو پھر اس کا وعدہ یاد دلایا۔

بڑھئی نے اس بار پھر تسلی دی اور ایسی دی کہ غریب کسان مطمئن ہوکر جا سویا۔ دن پر لگا کر اڑے، کئی جاڑے گزرے اور کسان کی نواسی کی شادی بھی قریب آگئی، اور کسان کو بڑھئی پر غصہ بھی بہت آیا۔ کسان بڑھئی کے پاس پہنچا جو آج بھی اسی شیشم کے درخت پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ کسان بڑھئی اور شیشم کے درخت کو ایک ساتھ دیکھ کر لڑنے مرنے پر آگیا، دکان کے اندر بڑھئی کا بیٹا بیٹھا ساری تکرار سن رہا تھا۔ باہر آیا اور باپ سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟

باپ نے بتایا کہ اس کسان کا فرینچر بننے والا ہے اور یہ شیشم بھی پڑا ہے بس کچھ سال ہوگئے ہیں آرڈر کو اور ہم  بنا نہیں پائے۔ بیٹے نے کسان کو مخاطب کیا اور کہا۔ اٹھائیں اپنا درخت اور لے جائیں، ہم نے کبھی کسی جلد باز کا کام نہیں کیا۔ زیادہ جلدی ہے تو کسی اور سے بنوا لیں۔ واقعہ پرانا ہے اور معلوم تاریخ سے بھی پہلے کا ہے اس لئے راوی آگے یہ نہیں لکھتا کہ اس بیٹے کو کسان نے کیا سزا دی، یا کسان پھر گھر جا سویا۔

یا پھر شیشم کندھے پر رکھ کر کسی نئے بڑھئی کی جانب چل پڑا۔ مگر تاریخ جیسے اپنے آپ کو دہراتی ہے ویسے ہی بڑھئی اور کسان آج بھی شیشم کے پاس کھڑے ہیں۔ کسان کہتا ہے 100 دن پورے ہوگئے اور بڑھئی نے کہا ہے یہ سو دن اسی شیشم کے ساتھ مصروف گزرے ہیں۔ اور ان مصروف دنوں کی داستان بھی کسان کے پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں بھر میں بذریعہ اشتہار پہنچا دی ہے۔ اب کسان تو بے چارہ گھر واپس جانے کو راضی ہے اور ظاہر ہے اچھے کی امید ہی لے کر جائے گا کیونکہ بڑھئی اس بار بھی غریب کسان کو مطمئن کردے گا مگر ساری بات جو خراب ہو رہی ہے وہ بڑھئی کے بیٹے کی وجہ سے۔

کیونکہ بیٹا آج کا ہے۔ بڑھئی تو شاید مزید 100 دن مانگ ہی لے مگر بیٹا سو دن کا حساب دینے میں زیادہ ہی فراخ دل ہے۔ پتا نہیں بڑھئی کے بیٹے کو کس نے کہ دیا کہ اس سے پہلے کہ کسان آئے اور آکے تقاضا کرے۔ یا شاید گاؤں کے دو چار بندے ساتھ ملا لے اس سے پہلے ہی گاؤں بھر میں اشتہار لگوا کر بتادو کہ بڑھئی ان سو دنوں اسی شیشم کے ساتھ بہت مصروف رہا ہے۔ بیٹے نے اس بار ایک کام اور کیا ہے۔ وہ یہ کہ شیشم میں بھی کئی خامیاں نکالی ہیں اور بتایا کہ جو شیشم یہ کسان سر پر اٹھائے لایا تھا، اس میں خرابی کتنی تھی۔

کھوکھلا کتنا تھا۔ اور بدبودار کتنا تھا۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس شیشم کا شاید فرنیچر بنانے میں پہلے اس شیشم کو ٹھیک کرنا پڑے۔ ؓبڑھئی اسی شیشم کے درخت پر بیٹھا سگریٹ پی رہا ہے۔ اسے پتا ہے کہ کسان آئے گا اور اس سے مزید دن مانگ لوں گا۔ ورنہ اٹھائے اپنا شیشم اور۔ نہیں اس بار شیشم بھی نہیں لے کر جانے دینا اور جیسے بیٹی نے بغیر فرنیچر زندگی گزار لی۔ نواسی بھی گزارلے گی۔ گزارنی ہی پڑے گی۔ تب تک بڑھئی کا بیٹا اگلے سو دن کا حساب اکٹھا کرکے گاؤں کی دیواروں پر لگوائے گا۔ یہ مصروفیت کوئی کم مصروفیت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).