کیا واقعاتِ قتل پر پابندی لگا دی جائے؟


مجھے معلوم ہے کہ آپ بہت اُداس ہیں، دو ہنستے بستے خاندانوں کے اجڑنے پر، دن دیہاڑے ہونے والی بربریت پر، اُن معصوم روحوں پر جن کے سامنے اُن کے ماں باپ اور بڑی بہن پر گولیاں برسائی گئیں۔ اور گولی تو اُن بیچاروں کے لئے ایک بھی کافی تھی مگر چونکہ دہشت گردی کو فی الفور ہی ختم کرنا مقصود تھا لہٰذا تیرہ سال بیٹی کو جو شکل سے ہی جنت کی مسافر نظر آ رہی تھی، کو تو سات سات گولیاں ماری گئیں۔

مگر ٹھہرئے۔

جی ہاں ٹھہرئیے، تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھئیے۔ پولیس کی اُن سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔

کارروائی نہایت ضروری تھی کیونکہ ملزمان بچوں کو اغوا کر کے لے جارہے تھے۔

نہیں نہیں۔

ملزمان کا پولیس سے مقابلہ ہؤا

نہیں نہیں

ملزمان شدید مطلوب دہشت گرد تھے

نہیں نہیں

صرف ملزمان کی گاڑی چلانے والا شخص دہشت گرد تھا

نہیں نہیں

ملزمان کی گاڑی چلانے والا شخص دہشت گردوں کا سہولت کار تھا

نہیں نہیں

چند دن پہلے ملزمان کی گاڑی ایک مشکوک گاڑی کے ساتھ دیکھی گئی تھی لہٰذا چند دن بعد اس گاڑی میں سوار ہونے والے لوگ دہشت گرد ہی ہو سکتے تھے۔

اور ہاں یہ واردات سے کچھ وقت پہلے ہی پتہ چلا تھا کہ گاڑی جس کی ہمہ وقت مانیٹرنگ لاہور میں ہو رہی تھی، لاہور سے نکل کر سینکڑوں میل دور پہنچ گئی ہے، لہٰذا اس میں سوار لوگوں کو مارنا ضروری تھا۔

پھر بھی آپ کے وزیر اعظم اور کچھ مرکزی اور صوبائی وزیر بھی آپ ہی کی طرح افسردہ ہیں اور ہاں جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے، اور ”اگر“ ”کوئی“ قصوروار پایا گیا تو سزا بھی دی جائے گی۔ فکر کرنے کی ضرورت نہیں آپ کا نام قصور واروں میں نہیں آئے گا۔ آپ مزید پریشان نہ ہوں۔ بلکہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے ہی نہیں کیونکہ وزیر اعظم نے خود جو نوٹس لے لیا ہے اور وہ پریشان بھی ہیں

اور اپنے گورنر پنجاب جن کی عمر برطانیہ کی سیاست میں گزری ہے، نے بھی آپ کی دلجوئی کے لئے ایک بیان دیا ہے کہ اس قسم کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔

اب خوش!

حالانکہ اس سے پہلے خود وزیر اطلاعات آپ کو یہ اطلاع اور دلاسا دے چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے بھی بچے ہوتے ہیں۔

آپ یقین جانئے کہ گورنر پنجاب کے یہ الفاظ اور وزیر اطلاعات کا یہ چھوٹا سا جملہ اگر کسی اور معاشرے میں کہا جاتا تو وہ تاریخ میں امر ہو جاتا ہے

مگر ہم لوگ زُود نسیاں ہیں۔ ایسے تاریخ ساز جملے بھی بھول جاتے ہیں۔

اس سے پہلے نہ ایسے گورنر ہوتے تھے نہ وزیر اطلاعات۔

اور وزیر اعظم تو اتنے افسردہ ہیں کہ رات بھر سو نہیں سکے۔ اور اسی رَت جگے کے ساتھ قطر کے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔ اگرچہ وہ اڑتالیس گھنٹوں میں بھی متاثرہ خاندانوں کے پاس نہیں پہنچ سکے مگر وہ افسردہ بہت ہیں۔ اور آپ میں سے کسی کی غمزدہ خاندانوں سے ملاقات ہو تو اُن تک یہ بات پہنچا دیں۔

کمیٹیاں شمیٹیاں بن گئی ہیں۔ انکوئریاں وغیرہ ہوں گی، اور اگر مارنے والوں کا جرم ثابت ہو گیا تو اُن کو سخت سزا دی جائے گی۔ اگر مرنے والے ہی مجرم نکلے تو پھر آپ اور سرکار راضی باضی۔

آگے آپ سمجھدار ہیں۔

مزید گُزارش ہے کہ آپ سیاستدانوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ اپوزیشن سیاستدانوں کو تو بس ایک جواب دے کر آپ خاموش کرا سکتے ہیں کہ اُن کے دور میں بھی ایسے واقعات ہوتے تھے۔

تو کیا اب ماضی کے حکمرانوں کے شور شرابے پر موجودہ دورِ انصاف میں ایسے بھیانک واقعات پر پابندی لگا دی جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).