معصوم نوحے!


چھوٹی سی بچی خون میں لتھڑے کپڑے پہنے ہاتھ میں فیڈر اٹھائے ریاست کے رکھوالوں کے لئے اک سوال لئے کھڑی ہے کہ یہی وہ ریاست مدینہ ہے جہاں فیڈر تو بچ گیا مگر بنا کے دینے والی ماں کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال کر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ جہاں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور لوگ پولیس سے ڈرتے ہیں کہ پولیس لوگوں کی حفاظت کرنے کی بجائے خود سب سے بڑی دہشت گرد ہے۔ کیا اس پولیس اور اس جیسے دوسرے بے لگام، کرپشن کے مارے ہوئے محکموں کے ساتھ ہم ریاست مدینہ بنائیں گے

شاید پنجاب کی قسمت میں پولیس کے ہاتھوں آئے دن معصوموں کی زندگیاں اجاڑنا لکھ دیا گیا ہے۔ ابھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے زخم بھرے نہیں تھے آج تک ان مظلوموں کی آہیں پورے پنجاب میں گونجتی تھیں اور انصاف کی کوئی صورت نہ نکلی کہ ساہیوال کے تین معصوموں کے سامنے ان کے نہتے بے قصور ماں باپ کو لگاتار گولیوں کی بوچھاڑ سے مار دیا گیا

ان بچوں کے لئے تو اسی روز قیامت کا حساب شروع ہوگیا۔ اب ساری عمر انھیں اس سانحے کی تفتیشوں میں سے گزرتے رہنا پڑے گا۔ وزیراعظم کا بیان ہے کہ بچوں کی سرپرستی ریاست کرے گی مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ قاتلوں کو سزا کون دے گا اور ان ظالموں کو نکیل کون ڈالے گا۔ محکموں کی انسانی بنیادوں پر ٹریننگ کیا ریاست کی ذمے داری نہیں؟

مجھے تو بچوں کے خون سے بھرے کپڑے نہیں بھولتے۔ کیسے نک سک سے تیار کرکے ماں نے گاڑی میں بٹھایا ہوگا لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سفر کتنا طویل ہوجائے گا۔ تکلیف اور بے بسی کا یہ سفر ماں باپ کی جان لے گیا اور معصوموں کو بے حال بے یارومددگار کسی پٹرول پمپ پہ چھوڑ دیاگیا۔ یہ ہمارے محافظ اداروں کی کارکردگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں چور کے ساتھ ساتھ پولیس سے بھی اتنا ہی ڈر لگتا ہے حالانکہ چور تو لوٹ کر چھوڑ دیتے ہیں یہ تو پنجاب پولیس کی شاندار کارکردگی کی بہترین مثال ہے کہ جان بھی لے کے نہیں چھوڑتے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں پولیس حفاظت کرنے آتی ہے، ہر طرح کی حفاظت۔ ہماری پولیس کو تو حفاظت کی الف ب کا ہی نہیں پتہ۔ مغرب میں پولیس بچوں کو ماں باپ کے حوالے نہیں کرتی اگر انھیں خطرہ ہو اور پاکستان میں بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر دوڑ لگا دیتی ہے حالانکہ دہشت گرد مارنے کے بعد بھی بہادری کا کوئی مظاہرہ نہیں اور ابھی تک یہ بات بھی سامنے نہیں کہ اس معصوم فیملی کو کیوں برباد کیا گیا۔ اگر دہشت گرد بھی تھے تو پکڑ کے تفتیش کرتے نہ کہ گولیوں سے بھونتے۔

معصوم بچے اپنے بے قصور ماں باہ کی ناگہانی موت پر کتنا تڑپے ہوں گے یہ تو جب بیتی، جس پہ بیتی، وہ جانے بس۔ تاہم اتنا تو ہے کہ لوگ ان کا درد محسوس کررہے ہیں، ان کے درد میں شریک ہیں۔ اپنے لکھنے والے حساس طبقے کی قدر اور بڑھ جاتی ہے جب اسے روح پرور سانحے پر سب اپنے قلم سے احتجاج کرتے ہیں کہ اگر قلم سے بھی نہ کیا تو پھر کیسے کریں گے۔ اک تصویر میں عثمان بزدار کو ہسپتال میں بچوں کے پاس پھول لے کے کھڑے دیکھا تو بہت تکلیف ہوئی کہ آخر یہ پھول خون کے دھبوں کو دھوسکیں گے کیا؟ کیا یہ ان پھولوں کی تازگی لوٹا سکیں گے جن کی زندگی سے ممتا اور پدری شفقت کی خوشبو چھین لی گئی۔ جن پھولوں کو ابھی مہکنا تھا ان کی زندگیوں کو بے دردی سے مسل دیا گیا۔ ایک گلدستہ اور ہمدردی کے چند بول نہ تو ان کے دکھ کا کوئی مداوا کرسکتے ہیں نہ ہی اس نظام کی خرابی کو دور کرسکتے ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے ایسی لاشیں ڈھوتے چلے آرہے ہیں اور اگر اس بے لگام نظام کو نکیل نہ ڈالی گئی تو یہ برا وقت اور یہ مشکل کسی پر بھی آ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).