الیکشن 2019 اور ہندوستانی مسلمان


گرچہ ابھی 2019 کے مرکزی انتخابات کی آمد میں کافی وقت باقی ہے مگر اس کی نوید ہمیں سنائی دینے لگی ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی بساط بچھانا اور اپنا اپنا بگل بجانا شروع کر دیا ہے۔ غرض یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں باضابطہ طور پر الیکشن کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں سے لے کر عام آدمی تک سبھی نے اپنے اپنے حربے استعمال کر نے شروع کر دِیے ہیں۔ اس کے لیے جہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے اپنے راگ الاپنے میں مصروف ہیں، وہیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی پروپیگنڈہ جاری ہو گیا ہے۔

نئے نئے اخبارات و رسائل و جرائد بھی نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ قیاس آرائیاں، چہ می گوئیاں، تبصرے اور لعن طعن کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ فرقے اور کمیونٹیاں اپنے اپنے منصوبوں میں جٹ گئی ہیں۔ لیکن اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کی جانب سے اب تک اس قسم کی کوئی سر گرمی شروع نہیں ہو ئی ہے۔ اور نہ اس کی کوئی رمق دکھائی دے رہی ہے۔ ہم بیدار تو ہوتے ہیں لیکن اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیا میں کامیاب وہی قوم ہوتی ہے جو پہلے سے منصوبے بناتی ہے، لائحہ عمل مرتب کرتی ہے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوگا یا اس سے ہٹ کر کچھ نیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیونکہ ہم ہمیشہ سے ہی اپنی بے وقوفی کا مظاہرہ کر کے ہزیمت اٹھاتے رہے ہیں۔ سیکولرازم، مذہب اور انسانیت کی آڑ میں سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو مہرا بناتے ہوئے جس قدر استحصال کیا ہے، شاید ہی کسی اور قوم کے نام پر اتنا کچھ ہوا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہماری مسلم جماعتوں نے بھی محض قرار داد منظور کرنے، منصوبہ بنانے، ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے، فتوے بازی کرنے، فسادات کے بعد باز آباد کاری کا کام کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔

مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا قیام ہر طرح کی رہنمائی اور قیادت کے لیے عمل میں آیا تھا۔ لیکن اس کا رویہ بھی قابل افسوس اور تشویش کا ہی رہا۔ بعد میں سب کو ملانے اور ایک ہو کر کام کر نے کے لیے مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل ہوئی لیکن یہ بھی دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ اور انھوں نے بھی وہی ڈھرا اپنایا جو دوسروں کا اب تک رہا تھا۔ جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث وغیرہ ملک کی بڑی مسلم تنظیمیں ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے بھی اس طرح کے معاملہ میں کوئی منظم قدم یا فیصلہ نہیں لیا اور نہ ہی مسلمانوں کی کوئی بہتر رہنمائی کی۔

اس صورتحال میں اب مسلمان کیا کریں، کون سی راہ اپنائیں، کدھر جائیں، کسے ووٹ دیں، جسے ووٹ دے رہے ہیں اس سے کیا مطالبہ اور کیا معاہدہ کریں؟ یہ سب انتہائی اہم سوالات ہیں۔ اور ان کے جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم نے اس کا کوئی جواب نہیں ڈھونڈا تو پھر ہمارا حال وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اب تک فسادات سے لے کر ظلم و استحصال، حق تلفی و نا انصافی جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے یہ سب ہمارے اسی غلط رویہ، منصوبہ بندی کے نہ ہونے اور ہماری غفلت شعاری کا نتیجہ ہے۔

اس میں ہمارے علمائے دین کی بھی غلطی ہے کہ انہوں نے ہمیں محض نماز، روزہ، زکاۃ اور حج تک محدود رکھا۔ دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں بنا دیں۔ حالانکہ اسلام میں تو دین و دنیا کی کوئی تفریق ہے ہی نہیں۔ اگر دنیوی امور شریعت کے احکامات کی پابندی کے ساتھ ہو تو ہماری دنیا بھی دین ہی ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی کی تعلیم دی تھی۔ انہوں نے دین اور دنیا کی قیادت کی کوئی تفریق نہیں کی تھی۔ اسلام کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک پیکیج ڈیل (Package Deal) ہے۔ صرف خانقاہوں اور مسجدوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کر نے اور محض چند ارکان پر عمل کر لینے سے معاملات حل نہیں ہو نے والے۔ اسلام کل زندگی اور ضابطہ حیات کا نام ہے جس میں سیاست، قیادت سبھی کچھ شامل ہے۔

آزادی سے پہلے 800 سال تک حکمرانی کرتے رہنے کے باوجود انگریزوں کی غلامی میں 200 سال تک جکڑ جانے میں بھی ہمارے یہی عوامل کار فرما تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ مورخین اور تجزیہ کار اسے مغلوں کی نا اہلی، معیشت کی تباہ حالی یا پھر اورنگ زیب کی کٹر پالیسی جیسی وجوہات سے تعبیر کرتے ہیں۔ معاملہ چاہے جو بھی ہو اس پر ہمیں فی الحال بحث نہیں کرنی، لیکن اگر اس کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو کہیں نہ کہیں ہمارے یہ رویّے ضرور سامنے آتے ہیں، جس سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بہر حال غلطی ہماری رہی تھی۔

اس غلطی کے احساس کے بعد گرچہ ملک کو آزاد کرانے کے جتن کیے گئے اور ہمیں اس میں کامیابی بھی ملی، لیکن ہماری حالت، اور ہماری فکر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بلکہ ہماری اسی نا اہلی کے سبب دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور ملک کا بٹوارہ ہو گیا، ہم اقلیت میں آ گئے۔ اور بھی قومیں اقلیت میں آئیں لیکن انھوں نے سیاست، معیشت ہر اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ہم ساٹھ سال میں اور بھی بد سے بد تر ہوتے گئے۔

ہم نے کبھی اپنے حالات میں سدھار لانے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کا تجزیہ کرنا گوارا ہی نہیں کِیا کہ اب تک ہم نے کیا پایا، کیا کھویا اور پھر آگے کیا کرنا ہے۔ غصہ کرنا ہے، بے صبری کا مظاہرہ کرنا ہے، محض ایک دوسرے پر الزام لگانا ہے، اپنے ہی نظریات کو صحیح سمجھنا ہے خواہ وہ غلط ہی کیوں نا نہ ہوں، چند کھوٹے سکوں کی خاطر ہماری ہی بیخ کنی کرنے والی پارٹیوں کا آلہ کار بنے رہنا ہے یا پھر یہ سب چھوڑ کر واقعی مسائل پر غور کرنا ہے۔

یہ ساری باتیں مجھے اکثر بے چین کر دیتی ہیں۔ اور اسی بے چینی نے مجھے یہ سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ میرے ناقص فہم میں ان تمام تفکرات و مشکلات سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب ہم متحد ہوں گے تب ہی کچھ کر پائیں گے۔ ہمیں سیاستدانوں کے آگے پیچھے خوشامدانہ انداز میں گھومنے، جذباتی اور بے تکی باتیں کرنے، اخباروں اور کتابوں سے بیزاری برتنے۔ فٹ پاتھ سے ون بائی ٹو چائے لے کر غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے اور اچھے مشورے دینے والوں پر لعن طعن کرنے سے باز آنا ہو گا۔ اور یہ بھی اچھی طرح پہچاننا ہوگا کہ کون ہمارا دشمن ہے اور کون دوست۔ ہمیں کوئی مناسب اور منظم لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور اسی کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اب تک جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمارے سامنے جو بھی ہے اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔

ہمیں تمام چیزوں کو بھلا کر یہ کوشش کرنی ہوگی کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں کالج ہوں، ہاسٹل ہوں، اسپتال ہوں، جم ہوں، بینکوں کی شاخیں ہوں، انجینئرنگ کالج ہوں، کونسلنگ سنٹر ہوں، اچھے راستے اور پارک ہوں، بجلی اور پانی کا اچھا انتظام ہو، روزگار کے مواقع ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لئے ہر حلقہ میں ایم ایل اے کے ساتھ آپ کی عدالت جیسے پروگرام ہوں اور ان سے ٹائم باونڈ وعدے لئے جائیں۔ اس کے لئے باضابطہ طور پر پارٹیوں سے معاہدہ کر کے تھوک کے بھاؤ میں انھیں ووٹ دیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah